كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ حَدَّثَنَا ضِرَارُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ ضِرَارٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، أَنَّ قَزَعَةَ مَوْلَى عَبْدِ الْقَيْسِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ((صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَعَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا خَلْفَنَا تُصَلِّي مَعَنَا وَأَنَا إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ قَزَعَةَ إِلَّا زِيَادُ بْنُ سَعْدٍ تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ جُرَيْجٍ
نماز كا بيان
باب
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے نبی علیہ السلام کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی۔ جبکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے نماز ادا کر رہیں تھیں اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا۔‘‘
تشریح :
(۱) یہ روایت سنداً کمزور ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر درست ہے۔
(۲) اس حدیث سے معلوم ہوا جب مقتدی مرد ایک ہو اور ایک عورت بھی ہو تو نماز باجماعت کا طریقہ کار کیا ہو گا۔
(۳) اسی طرح کا ایک واقعہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہتے ہیں ان کی دادی ملیکہ ( رضی اللہ عنہا ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کر کے آپ کو دعوت دی تو آپ نے اس میں سے کھایا اور فرمایا: ’’اٹھو! میں تمہیں نماز پڑھا دوں۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں اٹھ کر چٹائی کے پاس گیا جو طویل عرصہ سے پڑی رہنے سے سیاہ ہو چکی تھی، میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ایک یتیم اور میں نے آپ کے پیچھے صف بنائی جبکہ بڑھیا ہمارے پیچھے تھی اور آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ (دیکھئے: بخاري، رقم: ۸۶۰، مسلم، رقم: ۶۵۸)
(۴) یہ بھی معلوم ہوا عورتوں اور مردوں کا اکٹھے ایک صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے۔
(۵) امام کے پیچھے پہلے مرد کھڑے ہوں گے اور بعد میں عورتیں۔
(۶) اگر صف کے پیچھے اکیلی عورت نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے اگر مرد پڑھے گا تو اس پر اعادہ ہے۔
تخریج :
سنن نسائي، کتاب الامامة، باب موقف الامام، رقم : ۸۰۴ قال الشیخ الالباني صحیح۔ مسند احمد: ۱؍۳۰۲۔
(۱) یہ روایت سنداً کمزور ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر درست ہے۔
(۲) اس حدیث سے معلوم ہوا جب مقتدی مرد ایک ہو اور ایک عورت بھی ہو تو نماز باجماعت کا طریقہ کار کیا ہو گا۔
(۳) اسی طرح کا ایک واقعہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہتے ہیں ان کی دادی ملیکہ ( رضی اللہ عنہا ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کر کے آپ کو دعوت دی تو آپ نے اس میں سے کھایا اور فرمایا: ’’اٹھو! میں تمہیں نماز پڑھا دوں۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں اٹھ کر چٹائی کے پاس گیا جو طویل عرصہ سے پڑی رہنے سے سیاہ ہو چکی تھی، میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ایک یتیم اور میں نے آپ کے پیچھے صف بنائی جبکہ بڑھیا ہمارے پیچھے تھی اور آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ (دیکھئے: بخاري، رقم: ۸۶۰، مسلم، رقم: ۶۵۸)
(۴) یہ بھی معلوم ہوا عورتوں اور مردوں کا اکٹھے ایک صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے۔
(۵) امام کے پیچھے پہلے مرد کھڑے ہوں گے اور بعد میں عورتیں۔
(۶) اگر صف کے پیچھے اکیلی عورت نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے اگر مرد پڑھے گا تو اس پر اعادہ ہے۔