كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ فَهْدٍ النَّرْسِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((هَؤُلَاءِ لِهَذِهِ وَهَؤُلَاءِ لِهَذِهِ فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَهُمْ لَا يَخْتَلِفُونَ فِي الْقَدَرِ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ سُفْيَانَ إِلَّا أَبُوأَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ تَفَرَّدَ بِهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ وَلَا رَوَاهُ عَنْ أَيُّوبَ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ إِلَّا سُفْيَانُ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّ أَيُّوبَ هَذَا الَّذِي رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ هَذَا الْحَدِيثَ هُوَ أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ أَيُّوبُ السِّخْتِيَانِيُّ وَهُوَ الصَّوَابُ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى لَمْ يَرْوِهِ عَنْهُ مُطْلَقًا وَلَكِنْ لِجَلَالَةِ أَيُّوبَ السِّخْتِيَانِيِّ لَمْ يَنْسُبْهُ
ایمان کا بیان
باب
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یہ لوگ جنت کے لیے ہیں اور یہ لوگ جہنم کے لیے ہیں پھر لوگ الگ الگ ہوں گے گے اور وہ تقدیر میں اختلاف نہ کریں گے۔‘‘
تشریح :
انسانوں کی تقدیر آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار قبل لکھی جاچکی ہے اور تقدیر میں اہل جہنم واہل جنت کی تقسیم ثابت ہوچکی ہے۔ لیکن یہ معاملہ انسانوں سے مخفی ہے۔ لہٰذا یہ تکیہ کرکے بیٹھنا کہ ’’ہم جہنمی ہیں تو اعمال کا کیا فائدہ‘‘ تقدیر کا انکار ہے۔ بلکہ انسانوں کو اعمال کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ کتاب وسنت کی تعلیمات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں اور نیک اعمال زیادہ سے زیادہ سرانجام دیں۔ انسانوں کو مسئلہ تقدیر کریدنے اور تقدیر کے رازوں کا کھوج لگانے کا پابند نہیں بنایا۔ لہٰذا تقدیر سے غلط راہیں نکالنا اور اس سے غلط نتائج اخذ کرنا ناجائز اور ایمانیات کے خلاف ہے۔
تخریج :
سلسلة صحیحة، رقم : ۴۶۔ کنز العمال، رقم : ۱۵۴۷۔ مجمع الزوائد: ۷؍۱۸۶۔
انسانوں کی تقدیر آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار قبل لکھی جاچکی ہے اور تقدیر میں اہل جہنم واہل جنت کی تقسیم ثابت ہوچکی ہے۔ لیکن یہ معاملہ انسانوں سے مخفی ہے۔ لہٰذا یہ تکیہ کرکے بیٹھنا کہ ’’ہم جہنمی ہیں تو اعمال کا کیا فائدہ‘‘ تقدیر کا انکار ہے۔ بلکہ انسانوں کو اعمال کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ کتاب وسنت کی تعلیمات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں اور نیک اعمال زیادہ سے زیادہ سرانجام دیں۔ انسانوں کو مسئلہ تقدیر کریدنے اور تقدیر کے رازوں کا کھوج لگانے کا پابند نہیں بنایا۔ لہٰذا تقدیر سے غلط راہیں نکالنا اور اس سے غلط نتائج اخذ کرنا ناجائز اور ایمانیات کے خلاف ہے۔