كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْأَحْوَصِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ؛ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ عَاصِمٍ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ
نماز كا بيان
باب
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب گرمی زیادہ ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈا کرو۔ کیونکہ سخت گرمی جہنم کی بھاپ سے ہے۔‘‘
تشریح :
(۱) سخت گرمی میں ظہر کی نماز تاخیر سے ادا کرنا کہ دیواروں اور درختوں کا سایہ ہوجائے اور نمازی آسانی سے مسجد میں پہنچ جائیں مستحب عمل ہے۔
(۲) سخت گرمی جہنم کی تپش سے ہے۔ لہٰذا گرمی کا زور ٹوٹنے پر نماز ظہر کا اہتمام کرنا افضل ہے۔
(۳) اس حکم کو سفر سے خاص کرنا درست نہیں۔ کیونکہ کسی بھی روایت میں سفر کی تخصیص وارد نہیں۔
تخریج :
بخاري، کتاب مواقیت الصلاة باب الابراد بالظهر، رقم : ۵۳۶۔ مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب الابراد بالظهر، رقم : ۶۱۵۔
(۱) سخت گرمی میں ظہر کی نماز تاخیر سے ادا کرنا کہ دیواروں اور درختوں کا سایہ ہوجائے اور نمازی آسانی سے مسجد میں پہنچ جائیں مستحب عمل ہے۔
(۲) سخت گرمی جہنم کی تپش سے ہے۔ لہٰذا گرمی کا زور ٹوٹنے پر نماز ظہر کا اہتمام کرنا افضل ہے۔
(۳) اس حکم کو سفر سے خاص کرنا درست نہیں۔ کیونکہ کسی بھی روایت میں سفر کی تخصیص وارد نہیں۔