كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ كَمُّونَةَ الْمِصْرِيَّةِ الْمَعَافِرِيُّ، أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا وَهْبُ اللَّهِ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ، مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَفَطَّرَ قَدَمَاهُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَتَصْنَعُ هَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَفَلَا أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا؟)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ إِلَّا أَبوُ صَخْرٍ وَلَا عَنْ أَبِي صَخْرٍ إِلَّا حَيْوَةُ تَفَرَّدَ بِهِ وَهْبُ اللَّهِ بْنُ رَاشِدٍ وَرَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ وَنَافِعُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطِ عَنْ عُرْوَةَ
نماز كا بيان
باب
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی علیہ السلام رات کو اتنا قیام فرماتے کہ آپ کے قدم مبارک سوج گئے۔ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یارسول اللہ آپ اس طرح کرتے ہیں حالانکہ آپ کے گناہ پہلے ہی اللہ نے معاف کردیے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :’’کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
تشریح :
(۱) ابن بطال بیان کرتے ہیں کہ عبادات بجا لانے کی خاطر انسان اپنے نفس پر سختی کرسکتا ہے خواہ اس سے اس کے بدن کو تکلیف اٹھانا پڑے۔ کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عاقبت سنوارنے کا علم ہونے کے باوجود اتنی مشقت اٹھارہے ہیں تو ایسے شخص کے لیے بالاولیٰ محنت کرنی چاہیے جسے اپنی اخروی فلاح معلوم نہیں جبکہ اسے یہ بھی ڈر ہے کہ وہ جہنم کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔
(۲) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، عبادت میں مشقت اتنی مباح ہے کہ وہ اکتاہٹ و ملال کا شکار نہ ہو۔ ( تحفة الاحوذي: ۱؍۴۵۰)
تخریج :
بخاري، کتاب التفسیر باب سورة الفتح رقم: ۴۸۳۷۔ مسلم، کتاب صفات المنافقین باب اکثار الاعمال، رقم : ۲۸۲۰۔
(۱) ابن بطال بیان کرتے ہیں کہ عبادات بجا لانے کی خاطر انسان اپنے نفس پر سختی کرسکتا ہے خواہ اس سے اس کے بدن کو تکلیف اٹھانا پڑے۔ کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عاقبت سنوارنے کا علم ہونے کے باوجود اتنی مشقت اٹھارہے ہیں تو ایسے شخص کے لیے بالاولیٰ محنت کرنی چاہیے جسے اپنی اخروی فلاح معلوم نہیں جبکہ اسے یہ بھی ڈر ہے کہ وہ جہنم کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔
(۲) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، عبادت میں مشقت اتنی مباح ہے کہ وہ اکتاہٹ و ملال کا شکار نہ ہو۔ ( تحفة الاحوذي: ۱؍۴۵۰)