معجم صغیر للطبرانی - حدیث 1165

كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ رَاشِدٍ السُّلَمِيُّ النَّيْسَابُورِيُّ، بِالْبَصْرَةِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مِهْرَانَ بْنِ حَكِيمٍ أَخِي بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)) قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)) قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)) قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ((أَبَاكَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ مِهْرَانَ إِلَّا إِبْرَاهِيمُ وَلَمْ يُسْنِدْ مِهْرَانُ حَدِيثًا غَيْرَ هَذَا

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 1165

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب سیّدنا حکیم بن حزام کہتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کس کے ساتھ نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی ماں سے‘‘ میں نے کہا پھر کس سے؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی ماں سے‘‘ میں نے کہا پھر کس سے؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی ماں سے‘‘ میں نے کہا پھر کس سے؟ آپ نے فرمایا: ’’پھر باپ سے پھر زیادہ قرابت دار پھر اس کے بعد زیادہ قرابت دار سے۔‘‘
تشریح : امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : اس حدیث میں رشتہ داروں سے نیکی کرنے کی ترغیب ہے اور صلہ رحمی اور احسان کے اعتبار سے ماں کا حق تمام رشتہ داروں سے زیادہ ہے۔ ماں کے بعد باپ کا حق ہے۔ پھر قربت کے لحاظ سے رشتہ داروں سے نیکی کرنا افضل ہے اور علماء بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے اعتبار سے والدہ کو مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اولاد کی پیدائش کی مشقت اٹھانے، شفقت اور خدمت کا بوجھ اٹھانے میں زیادہ ذمہ داری ادا کرتی ہے اس لیے اس کی خدمت کا حق مقدم ہے۔ ( تحفة الاحوذي: ۵؍۱۱۶)
تخریج : بخاري، کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن الصحابة، رقم: ۵۹۷۱۔ مسلم، کتاب البر والصلة، باب بر الوالدین، رقم : ۲۵۴۸۔ امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : اس حدیث میں رشتہ داروں سے نیکی کرنے کی ترغیب ہے اور صلہ رحمی اور احسان کے اعتبار سے ماں کا حق تمام رشتہ داروں سے زیادہ ہے۔ ماں کے بعد باپ کا حق ہے۔ پھر قربت کے لحاظ سے رشتہ داروں سے نیکی کرنا افضل ہے اور علماء بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے اعتبار سے والدہ کو مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اولاد کی پیدائش کی مشقت اٹھانے، شفقت اور خدمت کا بوجھ اٹھانے میں زیادہ ذمہ داری ادا کرتی ہے اس لیے اس کی خدمت کا حق مقدم ہے۔ ( تحفة الاحوذي: ۵؍۱۱۶)