كِتَابُ التَّفْسِيرِ وَ فَضَائِلُ الْقُرْآنِ بَابٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَسَدِ بْنِ يَزِيدَ الْأَصْبَهَانِيُّ بِمَدِينَةِ أَصْبَهَانَ سَنَةَ 295 خَمْسٍ وَتِسْعِينَ وَمِائَتَيْنِ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: ﴿اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ [آل عمران: 102] فَقَالَ: ((لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي بِحَارِ الدُّنْيَا أَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعَايِشَهُمْ فَكَيْفَ بِمَنْ يَكُونُ طَعَامَهُ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الْأَعْمَشِ إِلَّا شُعْبَةُ
تفسير و فضائل القرآن كا بيان
باب
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ﴿ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ﴾ (آل عمران: ۱۰۳) تو فرمایا اگر تھوہر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے سمندروں میں ڈالا جائے تو تمام اہل دنیا پر ان کی زندگی خراب کر دے تو جس شخص نے اس کو کھایا اس کا کیا حال ہوگا۔‘‘
تشریح :
(۱) اس حدیث میں تقویٰ وللہیت اختیار کرنے کی تاکید ہے کیونکہ آخرت کا خیال اور جہنم کا تصور ذہن میں ہو تو انسان گناہوں سے کنارہ کش رہتا اور برائیوں سے اجتناب کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی خاتمہ بالخیر کے لیے کوشاں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(۲) الزقوم: ایک تلخ اور بدبودار درخت ہے جس کا پھل اہل دوزخ کی غذا ہے۔ (القاموس الوحید: ۷۱۰)
تخریج :
سنن ترمذي، کتاب صفة جهنم، باب صفة شراب اهل النار، رقم : ۲۵۸۵۔ سنن ابن ماجة، کتاب الزهد، باب ذکر الشفاعة، رقم : ۴۳۲۵۔ مسند احمد:،؍۳۰۰۔ مستدرك حاکم: ۲؍۳۲۲۔
(۱) اس حدیث میں تقویٰ وللہیت اختیار کرنے کی تاکید ہے کیونکہ آخرت کا خیال اور جہنم کا تصور ذہن میں ہو تو انسان گناہوں سے کنارہ کش رہتا اور برائیوں سے اجتناب کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی خاتمہ بالخیر کے لیے کوشاں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(۲) الزقوم: ایک تلخ اور بدبودار درخت ہے جس کا پھل اہل دوزخ کی غذا ہے۔ (القاموس الوحید: ۷۱۰)