كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابٌ قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ: أَحَدَّثَكُمْ إِدْرِيسُ بْنُ يَزِيدَ الَأَوْدِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا يَقُومُ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَبِهِ أَذًى)) فَأَقَرَّ بِهِ أَبُو أُسَامَةَ وَقَالَ: نَعَمْ
طہارت اور پاکیزگی کے احکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی طہارت کے بغیر نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔‘‘
تشریح :
ایک دوسری حدیث میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ یُدَافِعُهٗ الْاَخَبْثَانِ)) (مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۵۶۰۔ سنن ابي داود، رقم : ۸۹).... ’’جب کھانا حاضر ہو اور قضائے حاجت درپیش ہو تو نماز نہیں ہوتی۔‘‘
شرع نے یہ ممانعت اس لیے رکھی ہے کہ ان کی موجودگی میں خشوع خضوع نہیں رہتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نماز کی یہ صفت بیان کی ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خَاشِعُوْنَ﴾ (المومنون: ۲)....’’وہ اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘
پیشاب پاخانہ کی حاجت کے وقت نماز پڑھے گا تو اس کا دل نماز کی طرف نہیں ہوگا بلکہ اپنی حاجت کی طرف ہوگا۔
صحیح بخاری میں ہے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آدمی کے سمجھ دار ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی حاجت پوری کرے تاکہ اپنی نماز پر متوجہ ہو اور اس کا دل فارغ ہو۔
اگر کوئی اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس کو پیشاب پاخانے کی حاجت ہو تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ نماز ہو جائے گی، لیکن کامل نہیں ہوگی۔ اس لیے اسے دوبارہ پڑھنا مستحب ہے، جبکہ اہل ظاہر کہتے ہیں: نماز نہیں ہوتی۔ شیخ عبداللہ بسام رحمہ اللہ نے جمہور کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (توضیح الاحکام: ۲؍ ۱۰۳)
تخریج :
سنن ابن ماجة، کتاب الطهارة، باب ماجاء في النهي للحاقن الخ، رقم: ۶۱۸۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مسند احمد: ۲؍ ۴۴۲۔
ایک دوسری حدیث میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ یُدَافِعُهٗ الْاَخَبْثَانِ)) (مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۵۶۰۔ سنن ابي داود، رقم : ۸۹).... ’’جب کھانا حاضر ہو اور قضائے حاجت درپیش ہو تو نماز نہیں ہوتی۔‘‘
شرع نے یہ ممانعت اس لیے رکھی ہے کہ ان کی موجودگی میں خشوع خضوع نہیں رہتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نماز کی یہ صفت بیان کی ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خَاشِعُوْنَ﴾ (المومنون: ۲)....’’وہ اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘
پیشاب پاخانہ کی حاجت کے وقت نماز پڑھے گا تو اس کا دل نماز کی طرف نہیں ہوگا بلکہ اپنی حاجت کی طرف ہوگا۔
صحیح بخاری میں ہے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آدمی کے سمجھ دار ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی حاجت پوری کرے تاکہ اپنی نماز پر متوجہ ہو اور اس کا دل فارغ ہو۔
اگر کوئی اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس کو پیشاب پاخانے کی حاجت ہو تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ نماز ہو جائے گی، لیکن کامل نہیں ہوگی۔ اس لیے اسے دوبارہ پڑھنا مستحب ہے، جبکہ اہل ظاہر کہتے ہیں: نماز نہیں ہوتی۔ شیخ عبداللہ بسام رحمہ اللہ نے جمہور کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (توضیح الاحکام: ۲؍ ۱۰۳)