كِتَابُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَصِفَتٍهِمَا بَابٌ وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْجَنَّةُ حُفَّتْ بِالْمَكَارِهِ، وَالنَّارُ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ))
جنت اور جہنم کے خصائل
باب
اسی سند (سابقہ ۴۵۲) سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت کو ناپسندیدہ چیزوں کے ساتھ گھیر دیا گیا ہے، جبکہ جہنم کو شہوات کے ساتھ گھیر دیا گیا ہے۔‘‘
تشریح :
ایک دوسری حدیث میں ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ ذوالجلال نے جنت کو پیدا کیا تو جبریل امین سے کہا: جاؤ، اسے دیکھو، چنانچہ وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے تو کہا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا، اس میں داخل ہونا چاہے گا۔ پھر اللہ عزوجل نے اس کو مکروہات کے گھیرے میں دے دیا۔
’’اس میں آنے والوں کو جو عمل کرنے ہوں گے اور جن شرعی پابندیوں کو قبول کرنا ہوگا، عمومی طور پر ان کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی یا حق کی راہ پر جمے رہنے کی وجہ سے تکلیفیں اٹھانی ہوں گی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جب دوزخ کو پیدا کیا تو جبریل سے کہا: جاؤ اور دوزخ کو دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور دیکھ کر آئے، واپس آکر کہا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! کوئی نہیں جو اس کے متعلق سنے اور پھر اس میں داخل ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو نفسانی خواہشات اور مرغوبات کے گھیرے میں دے دیا۔ پھر فرمایا: اے جبریل! جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے اور کہا: اے میرے رب! تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں داخل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔‘‘
(سنن ابي داود، کتاب السنة، رقم: ۴۷۴۴۔ اسناده حسن)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاَمَّا مَنْ طَغٰی() وَآثَرَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا() فَاِِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰی() وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی() فَاِِنَّ الجنة هِیَ الْمَاْوٰی﴾ (النازعات: ۳۷۔۴۱).... ’’تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی) اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی) (اس کا) ٹھکانا جہنم ہے۔ ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘
تخریج :
بخاري، کتاب الرقاق، باب حجبت النار بالشهوات، رقم: ۶۴۸۷۔ مسلم، کتاب الجنة وصفة نعیمها واهلها، رقم: ۲۸۲۳۔ سنن ابي داود، رقم: ۴۷۴۴۔ سنن ترمذي ، رقم: ۲۵۶۰۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۶۰۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۷۱۶۔
ایک دوسری حدیث میں ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ ذوالجلال نے جنت کو پیدا کیا تو جبریل امین سے کہا: جاؤ، اسے دیکھو، چنانچہ وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے تو کہا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا، اس میں داخل ہونا چاہے گا۔ پھر اللہ عزوجل نے اس کو مکروہات کے گھیرے میں دے دیا۔
’’اس میں آنے والوں کو جو عمل کرنے ہوں گے اور جن شرعی پابندیوں کو قبول کرنا ہوگا، عمومی طور پر ان کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی یا حق کی راہ پر جمے رہنے کی وجہ سے تکلیفیں اٹھانی ہوں گی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جب دوزخ کو پیدا کیا تو جبریل سے کہا: جاؤ اور دوزخ کو دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور دیکھ کر آئے، واپس آکر کہا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! کوئی نہیں جو اس کے متعلق سنے اور پھر اس میں داخل ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو نفسانی خواہشات اور مرغوبات کے گھیرے میں دے دیا۔ پھر فرمایا: اے جبریل! جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے اور کہا: اے میرے رب! تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں داخل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔‘‘
(سنن ابي داود، کتاب السنة، رقم: ۴۷۴۴۔ اسناده حسن)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاَمَّا مَنْ طَغٰی() وَآثَرَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا() فَاِِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰی() وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی() فَاِِنَّ الجنة هِیَ الْمَاْوٰی﴾ (النازعات: ۳۷۔۴۱).... ’’تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی) اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی) (اس کا) ٹھکانا جہنم ہے۔ ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘