كِتَابُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَصِفَتٍهِمَا بَابٌ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَمَّادٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ يَنْعَمُ لَا يَبْأَسُ، لَا تَبْلَى ثِيَابُهُ وَلَا يَفْنَى شَبَابُهُ، وَفِي الْجَنَّةِ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ
جنت اور جہنم کے خصائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جنت میں داخل ہوگا، وہ ہمیشہ نعمتوں میں خوشحال رہے گا کبھی خستہ حال نہ ہوگا، اس کا لباس پرانا ہوگا نہ اس کی جوانی ختم ہوگی، اور جنت میں وہ کچھ ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے خیال نے اس کا احاطہ کیا ہے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جنتی جنت میں ہمیشہ خوش وخرم رہیں گے، کبھی پریشان اور رنجیدہ نہیں ہوں گے اور ہمیشہ جو ان رہیں گے، کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے۔ اور خوش باش اور بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کریں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے نبی کہ معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(قیامت کے روز) ایک پکارنے والا (فرشتہ جنتی لوگوں کو مخاطب کر کے) پکارے گا: تم لوگ ہمیشہ صحت مند رہو گے، کبھی بیمار نہیں ہوگے۔ ہمیشہ زندہ رہو گے، تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ ہمیشہ جوان رہو گے، تمہیں کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، ہمیشہ مزے کرو گے، تم کبھی رنجیدہ نہیں ہوگے اور یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے ارشاد مبارک کا: ﴿وَ نُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الجنة اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (الاعراف: ۴۳).... ’’جنتی لوگ پکارے جائیں گے کہ یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے بدلے میں جو تم کرتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنة وصفة نعیمها، باب فی دوام نعیم اهل الجنة الخ)
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت کی جو نعمتیں اور راحتیں ہوں گی ان کو دنیا والوں کی آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا تک نہ ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی آنکھ جنت اور اس کی بہار اور نعمتوں کو دیکھ نہیں پاتی، جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر ان کا نظارہ کیا تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مطلق نفی سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا نہ دیکھنا مراد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ اور قرآن مجید فرقان حمید میں بھی مذکورہ بالا بات کی تصدیق موجود ہے۔ ﴿فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: ۱۷).... ’’کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے ان کے لیے بطور جزاء پوشیدہ کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔‘‘
نفس نکرہ ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے یعنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ان نعمتوں کو جو اس نے مذکورہ اہل ایمان کے لیے چھپا کر رکھی ہیں ، جن سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔
تخریج :
مسلم، کتاب الجنة وصفة، باب في دوام نعیم اهل الجنة الخ، رقم: ۲۸۳۶۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۶۹۔ سنن دارمي، رقم: ۲۸۱۹۔ مسند ابي یعلی، رقم: ۶۴۲۸۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جنتی جنت میں ہمیشہ خوش وخرم رہیں گے، کبھی پریشان اور رنجیدہ نہیں ہوں گے اور ہمیشہ جو ان رہیں گے، کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے۔ اور خوش باش اور بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کریں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے نبی کہ معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(قیامت کے روز) ایک پکارنے والا (فرشتہ جنتی لوگوں کو مخاطب کر کے) پکارے گا: تم لوگ ہمیشہ صحت مند رہو گے، کبھی بیمار نہیں ہوگے۔ ہمیشہ زندہ رہو گے، تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ ہمیشہ جوان رہو گے، تمہیں کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، ہمیشہ مزے کرو گے، تم کبھی رنجیدہ نہیں ہوگے اور یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے ارشاد مبارک کا: ﴿وَ نُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الجنة اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (الاعراف: ۴۳).... ’’جنتی لوگ پکارے جائیں گے کہ یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے بدلے میں جو تم کرتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنة وصفة نعیمها، باب فی دوام نعیم اهل الجنة الخ)
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت کی جو نعمتیں اور راحتیں ہوں گی ان کو دنیا والوں کی آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا تک نہ ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی آنکھ جنت اور اس کی بہار اور نعمتوں کو دیکھ نہیں پاتی، جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر ان کا نظارہ کیا تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مطلق نفی سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کا نہ دیکھنا مراد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ اور قرآن مجید فرقان حمید میں بھی مذکورہ بالا بات کی تصدیق موجود ہے۔ ﴿فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: ۱۷).... ’’کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے ان کے لیے بطور جزاء پوشیدہ کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔‘‘
نفس نکرہ ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے یعنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ان نعمتوں کو جو اس نے مذکورہ اہل ایمان کے لیے چھپا کر رکھی ہیں ، جن سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔