كِتَابُ أِحْوَالِ الآخِرَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ
احوال آخرت کا بیان
باب
عطیہ نے سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی (حدیث سابق، رقم: ۵۳۲) کے مثل روایت کیا ہے۔
تشریح :
صور ایک قسم کا بگل ہوتا تھا، جو کسی جانور کے سینگ سے بنایا جاتا تھا۔حدیث میں مذکور صور سے مراد وہ صور ہے جو دنیا کے خاتمے پر بجایا جائے گا۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرَی فَاِِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾ (الزمر: ۶۸)
’’اور صور پھونک دیا جائے گا، پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ ایک بدو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: صور کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’صور ایک سینگ ہے جس میں پھونک دیا جائے گا۔‘‘ ( سلسلة الصحیحة ، رقم: ۱۵۸۰)
مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسلمان کو آخرت کے واقعات کی گھبراہٹ اور فکر لاحق ہو تو ((حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ، عَلَی اللّٰهِ تَوَکَّلْنَا)) پڑھنا چاہیے۔
تخریج :
سنن ترمذي ، رقم: ۳۲۴۳۔ مسند احمد: ۳؍۷۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۴۵۹۲۔ مسند ابي یعلٰی، رقم:۱۰۸۴۔
صور ایک قسم کا بگل ہوتا تھا، جو کسی جانور کے سینگ سے بنایا جاتا تھا۔حدیث میں مذکور صور سے مراد وہ صور ہے جو دنیا کے خاتمے پر بجایا جائے گا۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرَی فَاِِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾ (الزمر: ۶۸)
’’اور صور پھونک دیا جائے گا، پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ ایک بدو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: صور کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’صور ایک سینگ ہے جس میں پھونک دیا جائے گا۔‘‘ ( سلسلة الصحیحة ، رقم: ۱۵۸۰)
مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسلمان کو آخرت کے واقعات کی گھبراہٹ اور فکر لاحق ہو تو ((حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ، عَلَی اللّٰهِ تَوَکَّلْنَا)) پڑھنا چاہیے۔