مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 950

كِتَابُ أِحْوَالِ الآخِرَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، نا إِبْرَاهِيمُ الْهَجَرِيُّ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((يَبْلَى مِنِ ابْنِ آدَمَ كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا عَجَبُ الذَّنَبِ وَفِيهِ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 950

احوال آخرت کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کا ہر حصہ بوسیدہ ہو جائے گا، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخری سرے سے، اسی سے دوبارہ تخلیق کی جائے گی۔‘‘
تشریح : صحیح بخاری میں ہے: ((لَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْئٌ اِلَّا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَّاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنْبِ وَ مِنْهُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ)) (بخاري، رقم:۴۹۳۵).... ’’انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہوجاتی ہے سوائے ایک ہڈی کے وہ ریڑھ کی ہڈی کا آخری مہرہ ہے، قیامت کے دن اسی سے تخلیق شروع ہوگی۔‘‘ معلوم ہوا قبر میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ ہڈیاں بھی مٹی بن جاتی ہیں ۔ ہاں جن کے جسموں کو اللہ ذوالجلال محفوظ رکھنا چاہے تو ان کے جسموں کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری میں ہے عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی دیوار گری لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں خدا گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔ (بخاري، رقم: ۱۳۹۰) موطا امام مالک میں ہے عبدالرحمن بن ابوصعصعہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمرو بن جموح اور سیدنا عبداللہ بن عمرو انصاری اسلمی دونوں جنگ احد میں شہید ہوئے تھے پانی کے بہاؤ نے ان کی قبر کو اکھیڑ دیا، قریب تھا کہ ان کی قبر بہہ جاتی۔ دونوں حضرات ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے تھے۔ چنانچہ ان کی قبر کھودی گئی تاکہ ان کی میت نکال کر دوسری جگہ دفن کر دی جائے، دونوں حضرات کی میتوں میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی کل ہی شہید ہوئے ہیں ۔ دونوں حضرات میں سے ایک کو جب زخم لگا تو اس نے (تکلیف کی وجہ سے) اپنا ہاتھ زخم پر رکھ لیا تھا، جب ان کو (دوسری جگہ) دفن کرنے لگے تو (لوگوں نے ان کا) ہاتھ ہٹانا چاہا، لیکن وہ پھر وہیں (زخم کی جگہ) آلگا کھودنے کا واقعہ غزوۂ احد کے چھیالیس سال بعد کا ہے۔ (موطا مالک، کتاب الجهاد، باب الدفن في قبر واحد من ضرورۃ، رقم:۱۷۰۴) لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام قبروں میں قیامت تک محفوظ رہتے ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے جسم زمین پر حرام کر دئیے ہیں ۔‘‘ (صحیح ابي داود، رقم: ۹۲۵) علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس حکم میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ شہداء بھی شامل ہیں ۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے تو اس موذن کو شامل کیا ہے، جو نیک نیت سے اذان کہے۔ علاوہ ازیں قاضی عیاض رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مٹی تمام بنی آدم کے اجسام کھا جاتی ہے۔ سوائے مخصوص اجسام کے جیسے اجسام انبیاء علیہم السلام وغیرہ۔ ( فتح الباري: ۸؍ ۵۵۳، رقم الحدیث: ۴۸۱۴) علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ابن عقیل کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں (کہ مذکورہ بالاحدیث میں ہے کہ ریڑھ کی ہڈی باقی بچ جاتی ہے) اس میں اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے جو سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے کہ جو اللہ عدم سے وجود میں لا سکتا ہے تو اس کے لیے کسی چیز کے خمیر کا محتاج ہونا ضروری نہیں ۔ ( فتح الباري: ۸؍ ۵۵۳۔ ۵۵۴)
تخریج : مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعة، باب مابین النفختین، رقم: ۲۹۵۵۔ سنن ابي داود، رقم: ۴۷۴۳۔ صحیح بخاری میں ہے: ((لَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْئٌ اِلَّا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَّاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنْبِ وَ مِنْهُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ)) (بخاري، رقم:۴۹۳۵).... ’’انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہوجاتی ہے سوائے ایک ہڈی کے وہ ریڑھ کی ہڈی کا آخری مہرہ ہے، قیامت کے دن اسی سے تخلیق شروع ہوگی۔‘‘ معلوم ہوا قبر میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ ہڈیاں بھی مٹی بن جاتی ہیں ۔ ہاں جن کے جسموں کو اللہ ذوالجلال محفوظ رکھنا چاہے تو ان کے جسموں کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری میں ہے عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی دیوار گری لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں خدا گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔ (بخاري، رقم: ۱۳۹۰) موطا امام مالک میں ہے عبدالرحمن بن ابوصعصعہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمرو بن جموح اور سیدنا عبداللہ بن عمرو انصاری اسلمی دونوں جنگ احد میں شہید ہوئے تھے پانی کے بہاؤ نے ان کی قبر کو اکھیڑ دیا، قریب تھا کہ ان کی قبر بہہ جاتی۔ دونوں حضرات ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے تھے۔ چنانچہ ان کی قبر کھودی گئی تاکہ ان کی میت نکال کر دوسری جگہ دفن کر دی جائے، دونوں حضرات کی میتوں میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی کل ہی شہید ہوئے ہیں ۔ دونوں حضرات میں سے ایک کو جب زخم لگا تو اس نے (تکلیف کی وجہ سے) اپنا ہاتھ زخم پر رکھ لیا تھا، جب ان کو (دوسری جگہ) دفن کرنے لگے تو (لوگوں نے ان کا) ہاتھ ہٹانا چاہا، لیکن وہ پھر وہیں (زخم کی جگہ) آلگا کھودنے کا واقعہ غزوۂ احد کے چھیالیس سال بعد کا ہے۔ (موطا مالک، کتاب الجهاد، باب الدفن في قبر واحد من ضرورۃ، رقم:۱۷۰۴) لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام قبروں میں قیامت تک محفوظ رہتے ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے جسم زمین پر حرام کر دئیے ہیں ۔‘‘ (صحیح ابي داود، رقم: ۹۲۵) علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس حکم میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ شہداء بھی شامل ہیں ۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے تو اس موذن کو شامل کیا ہے، جو نیک نیت سے اذان کہے۔ علاوہ ازیں قاضی عیاض رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مٹی تمام بنی آدم کے اجسام کھا جاتی ہے۔ سوائے مخصوص اجسام کے جیسے اجسام انبیاء علیہم السلام وغیرہ۔ ( فتح الباري: ۸؍ ۵۵۳، رقم الحدیث: ۴۸۱۴) علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ابن عقیل کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں (کہ مذکورہ بالاحدیث میں ہے کہ ریڑھ کی ہڈی باقی بچ جاتی ہے) اس میں اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے جو سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے کہ جو اللہ عدم سے وجود میں لا سکتا ہے تو اس کے لیے کسی چیز کے خمیر کا محتاج ہونا ضروری نہیں ۔ ( فتح الباري: ۸؍ ۵۵۳۔ ۵۵۴)