مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 948

كِتَابُ أِحْوَالِ الآخِرَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، نا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَدَعَا بِجَرِيدَتَيْنِ فَجَعَلَ إِحْدَاهُمَا عِنْدَ رَأْسِهِ وَالْأُخْرَى عِنْدَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ((لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْهُ بَعْضَ عَذَابِ الْقَبْرِ مَا كَانَتْ فِيهِ نَدَاوَةٌ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 948

احوال آخرت کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے، وہاں ٹھہرے تو آپ نے کھجور کی دو ٹہنیاں منگوائیں ، آپ نے ان میں سے ایک اس کے سر کے پاس اور دوسری اس کے پاؤں کے پاس لگا دی، پھر فرمایا: ’’ہو سکتا ہے کہ جب تک ان میں تری (گیلا پن) رہے اللہ ان کے عذاب قبر میں تخفیف کر دے۔‘‘
تشریح : ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکہ کے ایک باغ میں تشریف لے گئے (وہاں ) آپ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا‘‘ پھر آپ نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا، ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ نے کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے۔‘‘ (بخاري، کتاب الوضوء، رقم: ۲۱۶) علماء یہ کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی برکات کی وجہ سے تھا، نہ کہ ان ٹہنیوں کی خصوصیات تھی، جیسا کہ ابن طولون کہتے ہیں کہ عذاب کا رک جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبروں پر دو شاخیں رکھی تھیں ۔(المنه ل الروی في الطب النبوی لابن طولون، ص:۱۹۰)
تخریج : مسند احمد: ۲؍ ۴۴۱۔ اسناده حسن۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکہ کے ایک باغ میں تشریف لے گئے (وہاں ) آپ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا‘‘ پھر آپ نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا، ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ نے کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے۔‘‘ (بخاري، کتاب الوضوء، رقم: ۲۱۶) علماء یہ کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی برکات کی وجہ سے تھا، نہ کہ ان ٹہنیوں کی خصوصیات تھی، جیسا کہ ابن طولون کہتے ہیں کہ عذاب کا رک جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبروں پر دو شاخیں رکھی تھیں ۔(المنه ل الروی في الطب النبوی لابن طولون، ص:۱۹۰)