كِتَابُ أِحْوَالِ الآخِرَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثَةِ أصْنَافٍ، ثُلُثٌ رُكْبَانًا، وَثُلُثٌ عَلَى أَقْدَامِهِمْ مَشْيًا، وَثُلُثٌ عَلَى وَجُوهِهِمْ)) ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَمْشُونَ عَلَى وَجُوهِهِمْ؟ فَقَالَ: ((إِنَّ الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَى أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَى وَجُوهِهِمْ، أَمَا إِنَّهُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ)) .
احوال آخرت کا بیان
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ تین قسموں پر جمع کیے جائیں گے: تہائی سواریوں پر، تہائی اپنے قدموں پر چلیں گے اور تہائی چہروں کے بل۔‘‘ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ اپنے چہروں کے بل کس طرح چلیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس ذات نے انہیں ان کے قدموں پر چلایا، وہ اس پر قادر ہے کہ وہ انہیں ان کے چہروں کے بل چلا دے، سنو! وہ ہر بلند جگہ اور کانٹے سے اپنے چہروں کے ذریعے بچیں گے۔‘‘
تشریح :
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ تین حالتوں پر جمع ہوں گے رغبت کرنے والے اور ڈرنے والے: دو دو آدمی ایک اونٹ پر، تین تین آدمی ایک اونٹ پر، چار چار آدمی ایک اونٹ پر دس دس آدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر آئیں گے۔ باقی لوگوں کو آگ اکٹھا کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے، وہاں قیلولہ کرے گی، جہاں وہ رات گزاریں گے، وہ وہاں رات گزارے گی۔ جہاں وہ صبح کریں گے، وہ وہاں صبح کرے گی، اور جہاں وہ شام کریں گے وہ وہاں شام کرے گی۔ ‘‘ (بخاري، رقم: ۶۵۲۲۔ سلسلة الصحیحة ، رقم: ۳۳۹۵)
معلوم ہوا کہ لوگوں کی تین اقسام ہوں گی، جمع کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب قیامت کے روز لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَةً() فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ() وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ مَا اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ() وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ﴾ (الواقعہ: ۷۔ ۱۰) ’’اس وقت تم تین گروہ بن جاؤ گے، (ایک تو) دائیں ہاتھوالے ہوں گے اور دائیں ہاتھ والوں کا کیا کہنا، (دوسرے) بائیں ہاتھ والے وں گے اور بائیں ہاتھ والوں کا کیا کہنا، (تیسرے) سبقت والے تو بہرحال سبقت لے جانے والے ہی ہیں ۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث اور آیات سے معلوم ہوا کہ دو قسم کے لوگ جتنی ہوں گے اور ایک قسم کے لوگ جہنمی ہوں گے جن کو چہروں کے بل چلایا جائے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
﴿الَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ اِِلٰی جَهَنَّمَ اُوْلٰٓئِكَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضَلُّ سَبِیْلًا﴾ (الفرقان:۳۴)
’’جو لوگ اپنے منه کے بل جہنم کی طرف جمع کیے جائیں گے، وہی بدتر مکان والے اور گمراہ تر راستے والے ہیں ۔‘‘
صحیح بخاری میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے نبی! قیامت میں کافروں کو ان کے چہرے کے بل کس طرح حشر کیا جائے گا ؟نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ ذات جس نے انہیں دنیا میں دو پاؤں پر چلایا، اسے اس پر قدرت نہیں ہے کہ قیامت کے دن انہیں چہرے کے بل چلا دے؟ ‘‘ (بخاري، کتاب الرقاق، رقم: ۶۵۲۳)
تخریج :
بخاري، کتاب التفسیر، باب قوله ﴿الذین یحشرون علی وجوههم الخ﴾، رقم: ۴۷۶۰۔ مسلم، کتاب صفات المنافقین، باب یحشر الکافر علی وجهه، رقم: ۲۸۰۶۔ سنن ترمذي ، رقم: ۳۱۴۲۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ تین حالتوں پر جمع ہوں گے رغبت کرنے والے اور ڈرنے والے: دو دو آدمی ایک اونٹ پر، تین تین آدمی ایک اونٹ پر، چار چار آدمی ایک اونٹ پر دس دس آدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر آئیں گے۔ باقی لوگوں کو آگ اکٹھا کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے، وہاں قیلولہ کرے گی، جہاں وہ رات گزاریں گے، وہ وہاں رات گزارے گی۔ جہاں وہ صبح کریں گے، وہ وہاں صبح کرے گی، اور جہاں وہ شام کریں گے وہ وہاں شام کرے گی۔ ‘‘ (بخاري، رقم: ۶۵۲۲۔ سلسلة الصحیحة ، رقم: ۳۳۹۵)
معلوم ہوا کہ لوگوں کی تین اقسام ہوں گی، جمع کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب قیامت کے روز لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَةً() فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ() وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ مَا اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ() وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ﴾ (الواقعہ: ۷۔ ۱۰) ’’اس وقت تم تین گروہ بن جاؤ گے، (ایک تو) دائیں ہاتھوالے ہوں گے اور دائیں ہاتھ والوں کا کیا کہنا، (دوسرے) بائیں ہاتھ والے وں گے اور بائیں ہاتھ والوں کا کیا کہنا، (تیسرے) سبقت والے تو بہرحال سبقت لے جانے والے ہی ہیں ۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث اور آیات سے معلوم ہوا کہ دو قسم کے لوگ جتنی ہوں گے اور ایک قسم کے لوگ جہنمی ہوں گے جن کو چہروں کے بل چلایا جائے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
﴿الَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ اِِلٰی جَهَنَّمَ اُوْلٰٓئِكَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضَلُّ سَبِیْلًا﴾ (الفرقان:۳۴)
’’جو لوگ اپنے منه کے بل جہنم کی طرف جمع کیے جائیں گے، وہی بدتر مکان والے اور گمراہ تر راستے والے ہیں ۔‘‘
صحیح بخاری میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے نبی! قیامت میں کافروں کو ان کے چہرے کے بل کس طرح حشر کیا جائے گا ؟نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ ذات جس نے انہیں دنیا میں دو پاؤں پر چلایا، اسے اس پر قدرت نہیں ہے کہ قیامت کے دن انہیں چہرے کے بل چلا دے؟ ‘‘ (بخاري، کتاب الرقاق، رقم: ۶۵۲۳)