مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 937

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ نِسْوَةٍ، فَإِذَا هُوَ قَدْ عَلَّقَ سِقَاءً يَقْطُرُ عَلَيْهِ مِنْ مَائِهِ مِنْ شِدَّةِ مَا يَجِدُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ دَعَوْتَ اللَّهَ أَنْ يُفَرِّجَ عَنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ بَلَاءً الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 937

زہد کے مسائل باب سیدہ فاطمہ (بنت الیمان) رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: میں چند خواتین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو دیکھا کہ آپ نے مشکیزہ لٹکا رکھا ہے اور آپ جو تکلیف محسوس کر رہے ہیں اس وجہ سے اس کا پانی قطرہ قطرہ کر کے آپ پر گرایا جا رہا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ آپ کی تکلیف دور فرما دے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انبیاء علیہم السلام پر سب سے سخت آزمائش آتی ہے، پھر جو ان کے بعد، پھر جو ان کے بعد اور پھر جو ان کے بعد۔‘‘
تشریح : معلوم ہوا بندہ اللہ ذوالجلال کے جتنا قریب ہوتا ہے اتنی ہی اس کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ آزمائشیں گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو بہت تیز بخار ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں مجھے تنہا ایسا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ثواب بھی دوگنا ہے؟ فرمایا: ’’ہاں یہی بات ہے۔ مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے کانٹا ہو یا اس سے زیادہ تکلیف دینے والی کوئی چیز تو جیسے درخت اپنے پتوں کو گراتا ہے، اسی طرح اللہ پاک اس تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔‘‘ (بخاري، کتاب المرضی، رقم: ۵۶۴۸) اللہ کا فرمان ہے: ﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ﴾ (العنکبوت:۲) .... ’’کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ، ہم انہیں بغیر آزمائے ہی چھوڑ دیں گے۔‘ ‘ معلوم ہوا مومنوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سابقہ امتوں اور انبیائے کرام علیہم السلام کے حالات کو پیش نظر رکھ کر ہمیں بھی مشکلات و مصائب پر صبر کرنا چاہیے۔
تخریج : السابق۔ معلوم ہوا بندہ اللہ ذوالجلال کے جتنا قریب ہوتا ہے اتنی ہی اس کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ آزمائشیں گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو بہت تیز بخار ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں مجھے تنہا ایسا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ثواب بھی دوگنا ہے؟ فرمایا: ’’ہاں یہی بات ہے۔ مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے کانٹا ہو یا اس سے زیادہ تکلیف دینے والی کوئی چیز تو جیسے درخت اپنے پتوں کو گراتا ہے، اسی طرح اللہ پاک اس تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔‘‘ (بخاري، کتاب المرضی، رقم: ۵۶۴۸) اللہ کا فرمان ہے: ﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ﴾ (العنکبوت:۲) .... ’’کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ، ہم انہیں بغیر آزمائے ہی چھوڑ دیں گے۔‘ ‘ معلوم ہوا مومنوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سابقہ امتوں اور انبیائے کرام علیہم السلام کے حالات کو پیش نظر رکھ کر ہمیں بھی مشکلات و مصائب پر صبر کرنا چاہیے۔