مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 908

كِتَابُ الدِّيَاتِ وَ الحُدُودِ بَابٌ اَخْبَرَنَا اَبُوْ عَامِرِ الْعَقَدِیِّ، نَا زُهَیْرٌ۔ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ اَبِیْ عَمْرٍو، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ وَجَدْتُّمُوْہٗ یَأْتِیْ الْبَهِیْمَةَ، فَاقْتُلُوْهٗ وَاقْتُلُوا الْبَهِیْمَةَ، وَمَنْ وَجَدْتُّمُوْہٗ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُوْلَ بِهٖ.

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 908

حدود اور دیتوں کا بیان باب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جس شخص کو چوپائے سے برا فعل (شہوت پوری کرنے والا عمل) کرتے دیکھو تو اس شخص کو اور اس چوپائے کو قتل کر دو، اور تم جس شخص کو قوم لوط کا سا فعل کرتے ہوئے دیکھو، تو اس فعل کو کرنے والے اور فعل کروانے والے (فاعل ومفعول) کو قتل کر دو۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جانور سے بدفعلی کرنے والے کی سزا قتل ہے اور اس میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کا فرق نہیں ہے اور جس جانور سے بدفعلی کی جاتی ہے اس کو بھی قتل کردینا چاہیے۔ جانور کو قتل کرنے کا سبب سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا: میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں سنا۔ البتہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ بدفعلی کی وجہ سے اس کا گوشت کھانے یا اس سے فائدہ حاصل کرنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ (سنن ترمذي ، رقم: ۱۴۵۵ اسناده حسن صحیح) قوم لوط والا عمل کرنے والوں کی سزا کے متعلق مختلف اقوال ہیں: سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اسے تلوار کے ساتھ قتل کرکے جلا دینا چاہیے۔ سیّدنا عمر اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس پر دیوار گرا دی جائے۔ امام شافعی، ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سزا وہی ہے جو زانی کی ہے۔ امام مالک اور احمد رحمہم اللہ نے کہا ہے: اسے ہر صورت رجم کیا جائے گا خواہ کنوارہ ہو یا شادی شدہ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: اس پر کوئی حد نافذ نہیں کی جائے گی بلکہ بطور تعزیر چند کوڑے لگا دئیے جائیں گے۔ (تحفة الاحوذي: ۴؍ ۸۴۷۔ کتاب الام: ۷؍ ۱۶۳۔ المغنی: ۱۲؍ ۳۵۰۔ نیل الاوطار: ۴؍ ۵۶۷) تاہم ان کو ایسی سزا ملنی چاہیے جو قوم لوط کے مشابہ ہو جس کو زمین میں دھنسا دیا گیا تھا اور اس پر پتھروں کی بارش برسی۔ (نیل الاوطار: ۴؍ ۵۶۸)
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الحدود، کتاب فیمن أتی بهیمة، رقم: ۴۴۶۲، ۴۴۶۴ قال الالباني: حسن صحیح۔ سنن ترمذي ، ابواب الحدود، باب ماجاء فیمن یقع علی البهیمة، رقم: ۱۴۵۵، ۱۴۵۶۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۲۵۶۱، ۲۵۶۲۔ صحیح ترغیب وترهیب، رقم: ۲۴۲۲۔ مسند احمد:۱؍۳۰۰۔ حاکم: ۴؍ ۳۵۵۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جانور سے بدفعلی کرنے والے کی سزا قتل ہے اور اس میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کا فرق نہیں ہے اور جس جانور سے بدفعلی کی جاتی ہے اس کو بھی قتل کردینا چاہیے۔ جانور کو قتل کرنے کا سبب سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا: میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں سنا۔ البتہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ بدفعلی کی وجہ سے اس کا گوشت کھانے یا اس سے فائدہ حاصل کرنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ (سنن ترمذي ، رقم: ۱۴۵۵ اسناده حسن صحیح) قوم لوط والا عمل کرنے والوں کی سزا کے متعلق مختلف اقوال ہیں: سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اسے تلوار کے ساتھ قتل کرکے جلا دینا چاہیے۔ سیّدنا عمر اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس پر دیوار گرا دی جائے۔ امام شافعی، ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سزا وہی ہے جو زانی کی ہے۔ امام مالک اور احمد رحمہم اللہ نے کہا ہے: اسے ہر صورت رجم کیا جائے گا خواہ کنوارہ ہو یا شادی شدہ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: اس پر کوئی حد نافذ نہیں کی جائے گی بلکہ بطور تعزیر چند کوڑے لگا دئیے جائیں گے۔ (تحفة الاحوذي: ۴؍ ۸۴۷۔ کتاب الام: ۷؍ ۱۶۳۔ المغنی: ۱۲؍ ۳۵۰۔ نیل الاوطار: ۴؍ ۵۶۷) تاہم ان کو ایسی سزا ملنی چاہیے جو قوم لوط کے مشابہ ہو جس کو زمین میں دھنسا دیا گیا تھا اور اس پر پتھروں کی بارش برسی۔ (نیل الاوطار: ۴؍ ۵۶۸)