مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 906

كِتَابُ الدِّيَاتِ وَ الحُدُودِ بَابٌ أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، نا سُفْيَانُ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ قَذَفَ عَبْدَهُ وَهُوَ بَرِيءٌ مِمَّا قَالَ، حُدَّ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)).

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 906

حدود اور دیتوں کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اپنے غلام پر تہمت لگاتا ہے، جبکہ وہ اس تہمت سے بری ہے تو قیامت کے دن اس پر حد قائم کی جائے گی۔‘‘
تشریح : تہمت لگانا بہت بڑا جرم اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو (ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر فرمایا) پاکدامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘’ (بخاري، رقم: ۶۸۵۷) تہمت لگانے والوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَةً﴾ (النور: ۴).... ’’اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ، پھر چار گواہ نہیں لاتے انہیں اسی کوڑے لگاؤ۔‘‘ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا اگر غلام مالک پر تہمت لگائے جبکہ مالک تہمت سے بری ہو تو پھر غلام کو حد لگے گی۔ اور اگر مالک غلام پر تہمت لگائے تو مالک پر دنیا میں حد قائم نہیں ہوگی (اس پر علماء کا اتفاق ہے)۔ (توضیح الاحکام: ۶؍ ۲۶۰) لیکن روز قیامت وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا، اگر غلام نے واقعی جرم کیا ہو تو پھر غلام کو سزا ملے گی، مذکورہ حدیث سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جو اپنے مالکانہ اختیارات کے گھمنڈ میں اپنے غلاموں اور نوکروں پر ظلم کرتے ہیں ۔
تخریج : السابق۔ تہمت لگانا بہت بڑا جرم اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو (ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر فرمایا) پاکدامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘’ (بخاري، رقم: ۶۸۵۷) تہمت لگانے والوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَةً﴾ (النور: ۴).... ’’اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ، پھر چار گواہ نہیں لاتے انہیں اسی کوڑے لگاؤ۔‘‘ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا اگر غلام مالک پر تہمت لگائے جبکہ مالک تہمت سے بری ہو تو پھر غلام کو حد لگے گی۔ اور اگر مالک غلام پر تہمت لگائے تو مالک پر دنیا میں حد قائم نہیں ہوگی (اس پر علماء کا اتفاق ہے)۔ (توضیح الاحکام: ۶؍ ۲۶۰) لیکن روز قیامت وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا، اگر غلام نے واقعی جرم کیا ہو تو پھر غلام کو سزا ملے گی، مذکورہ حدیث سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جو اپنے مالکانہ اختیارات کے گھمنڈ میں اپنے غلاموں اور نوکروں پر ظلم کرتے ہیں ۔