مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 904

كِتَابُ الدِّيَاتِ وَ الحُدُودِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ اطَّلَعَ فِي دَارِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ فَفَقَؤُوا عَيْنَهُ فَلَا دِيَةَ وَلَا قِصَاصَ.

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 904

حدود اور دیتوں کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے بلا اجازت کسی کے گھر میں جھانکا اور انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی، تو اس کی کوئی دیت ہے نہ قصاص۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کسی کے گھر بغیر اجازت جھانکنا ناجائز ہے، اور یہ انتہائی قبیح حرکت ہے۔ اسی لیے دروازے پر دستک دینے کے بعد دین اسلام نے یہ ادب سکھایا ہے کہ دروازے کی ایک جانب کھڑے ہوں ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے دروازے پر اس سے (اندر جانے کی) اجازت لینے کے لیے تشریف لاتے تو آپ (دروازے کے) بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے تھے، بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے، اگر اجازت مل جاتی تو ٹھیک، ورنہ واپس تشریف لے جاتے تھے۔ (ادب المفرد للبخاري، رقم: ۱۰۷۸) مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو دین اسلام کا معاشرے کو امن وامان کی فضا دینا ثابت ہوتا ہے کہ اگر ظالم شخص کسی کی ایک آنکھ نکال دے تو اس سے قصاص لیا جائے گا اور قصاص میں اس کی آنکھ نکال لی جائے گی یا اس سے پچاس اونٹ نصف دیت وصول کی جائے گی۔ لیکن اگر وہی آنکھ دیانت وامانت کا مظاہرہ نہیں کرتی، کسی کے گھر داخل ہو جاتی ہے تو اس کی قدر ومنزلت ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ گھر تو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اہل خانہ کی جان ومال اور عزت اس میں محفوظ رہے، اگر کوئی باہر سے گھر کے اندر کا نظارہ کرتا ہے اور پردہ نشین عورتوں کے لیے پریشانی کا موجب بنتا ہے تو اسلام اس کی آنکھ کی ضمانت نہیں دیتا۔
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الادب، باب فی الاستئذان، رقم: ۵۱۷۲ قال الاالباني: صحیح۔ مسند احمد: ۲؍ ۴۱۴۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۶۰۴۸ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کسی کے گھر بغیر اجازت جھانکنا ناجائز ہے، اور یہ انتہائی قبیح حرکت ہے۔ اسی لیے دروازے پر دستک دینے کے بعد دین اسلام نے یہ ادب سکھایا ہے کہ دروازے کی ایک جانب کھڑے ہوں ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے دروازے پر اس سے (اندر جانے کی) اجازت لینے کے لیے تشریف لاتے تو آپ (دروازے کے) بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے تھے، بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے، اگر اجازت مل جاتی تو ٹھیک، ورنہ واپس تشریف لے جاتے تھے۔ (ادب المفرد للبخاري، رقم: ۱۰۷۸) مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو دین اسلام کا معاشرے کو امن وامان کی فضا دینا ثابت ہوتا ہے کہ اگر ظالم شخص کسی کی ایک آنکھ نکال دے تو اس سے قصاص لیا جائے گا اور قصاص میں اس کی آنکھ نکال لی جائے گی یا اس سے پچاس اونٹ نصف دیت وصول کی جائے گی۔ لیکن اگر وہی آنکھ دیانت وامانت کا مظاہرہ نہیں کرتی، کسی کے گھر داخل ہو جاتی ہے تو اس کی قدر ومنزلت ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ گھر تو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اہل خانہ کی جان ومال اور عزت اس میں محفوظ رہے، اگر کوئی باہر سے گھر کے اندر کا نظارہ کرتا ہے اور پردہ نشین عورتوں کے لیے پریشانی کا موجب بنتا ہے تو اسلام اس کی آنکھ کی ضمانت نہیں دیتا۔