كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ، نا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي الطَّرِيقِ فَاجْعَلُوهُ عَلَى سَبْعَةِ أَذْرُعٍ)) .
فیصلہ کرنے کرانے کے مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب لوگوں کا راستے کے متعلق اختلاف ہو جائے تو اسے سات ہاتھ مقرر کر لو۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جب شرکاء راستے کی چوڑائی میں جھگڑ پڑیں تو وہ چوڑائی سات ذراع (یعنی سات ہاتھ) ہوگی۔ ہاتھ سے مراد پنجے سے کہنی تک کا فاصلہ ہے جو دو بالشت یعنی آٹھ گرہ یا ڈیڑھ فٹ کے برابر ہے۔ سات ذراع کی مقدار ساڑھے تین گز یا ساڑھے دس فٹ کے برابر ہے، لیکن سات فٹ یہ کم از کم ہے۔ موجودہ دور کاروں ، بسوں وغیرہ کا ہے، تو اس لیے ان کی مناسبت سے حد مقرر کی جائے، لہٰذا نئی کالونیوں کے نقشے تیار کرتے وقت زیادہ سے زیادہ چوڑائی رکھنی چاہیے، اگر نہیں تو کم از کم سات ہاتھ۔
اور اسی طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا: جو دکاندار راستے پر بیٹھتے ہیں ، ان کے لیے ضروری ہے کہ اگر راستہ سات ہاتھ سے زیادہ ہے تو سات ہاتھ چھوڑ کر باقی حصے میں بیٹھیں ، اگر سات ہاتھ کے اندر اندر یہ بیٹھتے ہیں تو ان کو منع کیا جائے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔
تخریج :
السابق۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جب شرکاء راستے کی چوڑائی میں جھگڑ پڑیں تو وہ چوڑائی سات ذراع (یعنی سات ہاتھ) ہوگی۔ ہاتھ سے مراد پنجے سے کہنی تک کا فاصلہ ہے جو دو بالشت یعنی آٹھ گرہ یا ڈیڑھ فٹ کے برابر ہے۔ سات ذراع کی مقدار ساڑھے تین گز یا ساڑھے دس فٹ کے برابر ہے، لیکن سات فٹ یہ کم از کم ہے۔ موجودہ دور کاروں ، بسوں وغیرہ کا ہے، تو اس لیے ان کی مناسبت سے حد مقرر کی جائے، لہٰذا نئی کالونیوں کے نقشے تیار کرتے وقت زیادہ سے زیادہ چوڑائی رکھنی چاہیے، اگر نہیں تو کم از کم سات ہاتھ۔
اور اسی طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا: جو دکاندار راستے پر بیٹھتے ہیں ، ان کے لیے ضروری ہے کہ اگر راستہ سات ہاتھ سے زیادہ ہے تو سات ہاتھ چھوڑ کر باقی حصے میں بیٹھیں ، اگر سات ہاتھ کے اندر اندر یہ بیٹھتے ہیں تو ان کو منع کیا جائے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔