كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِذَا أُكْرِهَ الرَّجُلَانَ عَلَى الْيَمِينِ فَاسْتَحَبَّاهَا أُسْهِمَ بَيْنَهُمَا))
فیصلہ کرنے کرانے کے مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو آدمی قسم اٹھانے پر مجبور کر دیئے جائیں تو پھر ان دونوں کے درمیان قرعہ اندازی کرنا پسندیدہ امر ہے۔‘‘
تشریح :
شریعت کا یہ قانون ہے کہ جب جھگڑا ہو تو مدعی گواہ پیش کرے، اگر وہ گواہ پیش نہ کرے تو مدعیٰ علیہ قسم کھائے جیسا کہ حدیث میں ہے ((اَلْبَیِّنَةُ عَلَی الْمُدَّعِیَ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنْ اَنَکَرَ۔)).... ’’مدعی پر ثبوت (یعنی گواہ وغیرہ) پیش کرنا لازم ہے اور قسم وہ اٹھائے گا جس نے انکار کیا۔‘‘ (بیهقي: ۸؍ ۱۲۳۔ ارواء الغلیل، رقم: ۱۹۳۸ اسناده صحیح)
لیکن جب صورت حال یہ ہو کہ دونوں فریق مدعی بھی ہوں اور مدعا علیہ بھی ہوں ، تو ایسی صورت میں دونوں قسم کھانے کا حق رکھتے ہیں ۔ اگر دونوں ہی قسم کھانے کے لیے تیار ہو جائیں تو پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کرائی جائے گی جس کے نام قرعہ نکلے گا وہی قسم کھا کر اس چیز کا مستحق قرار پائے گا۔ (طرح التثریب: ۸؍ ۸۷)
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اکراہ سے مراد حقیقی اکراہ نہیں ہے، اس لیے کہ کسی انسان کو قسم اٹھوانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب قسم کو ان پر پیش کیا جائے اور وہ دونوں قسم اٹھانے کو تیار ہو جائیں ، اگرچہ وہ قلبی طور پر اسے مکروہ سمجھیں ۔ یہ استحباب کے معنی ہیں ۔ ایسی صورت میں وہ دونوں قسم اٹھانے کو دل سے اچھا سمجھ رہے ہوں اور اب ان میں جھگڑا اس بات کا ہے کہ پہلے قسم کون اٹھائے گا تو اس قسم کو اٹھانے کے لیے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہی مراد ہے۔ ( فتح الباري: ۵؍ ۳۵۲۔ معالم السنن: ۴؍ ۳۹)
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الاقضیة، باب الرجلین یدعیان الخ، رقم: ۳۶۱۷۔ قال الشیخ الالباني: صحیح۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۱۷۔
شریعت کا یہ قانون ہے کہ جب جھگڑا ہو تو مدعی گواہ پیش کرے، اگر وہ گواہ پیش نہ کرے تو مدعیٰ علیہ قسم کھائے جیسا کہ حدیث میں ہے ((اَلْبَیِّنَةُ عَلَی الْمُدَّعِیَ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنْ اَنَکَرَ۔)).... ’’مدعی پر ثبوت (یعنی گواہ وغیرہ) پیش کرنا لازم ہے اور قسم وہ اٹھائے گا جس نے انکار کیا۔‘‘ (بیهقي: ۸؍ ۱۲۳۔ ارواء الغلیل، رقم: ۱۹۳۸ اسناده صحیح)
لیکن جب صورت حال یہ ہو کہ دونوں فریق مدعی بھی ہوں اور مدعا علیہ بھی ہوں ، تو ایسی صورت میں دونوں قسم کھانے کا حق رکھتے ہیں ۔ اگر دونوں ہی قسم کھانے کے لیے تیار ہو جائیں تو پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کرائی جائے گی جس کے نام قرعہ نکلے گا وہی قسم کھا کر اس چیز کا مستحق قرار پائے گا۔ (طرح التثریب: ۸؍ ۸۷)
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اکراہ سے مراد حقیقی اکراہ نہیں ہے، اس لیے کہ کسی انسان کو قسم اٹھوانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب قسم کو ان پر پیش کیا جائے اور وہ دونوں قسم اٹھانے کو تیار ہو جائیں ، اگرچہ وہ قلبی طور پر اسے مکروہ سمجھیں ۔ یہ استحباب کے معنی ہیں ۔ ایسی صورت میں وہ دونوں قسم اٹھانے کو دل سے اچھا سمجھ رہے ہوں اور اب ان میں جھگڑا اس بات کا ہے کہ پہلے قسم کون اٹھائے گا تو اس قسم کو اٹھانے کے لیے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہی مراد ہے۔ ( فتح الباري: ۵؍ ۳۵۲۔ معالم السنن: ۴؍ ۳۹)