كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أُمِّ الْحُصَيْنِ، عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ
امارت كى احكام و مسائل
باب
سیدہ ام الحصین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پس راوی نے اسی سابقہ حدیث کی مثل ذکر کیا۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے امیر کی اطاعت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے اور معلوم ہوا امیر کی اطاعت کرنا فرض ہے، جیسا کہ مثال سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ناک کٹا ہو، سیاہ رنگ ہو اور غلام بھی ہو تو لوگ قدر نہیں کرتے، لیکن شریعت نے کہا ہے کہ امیر جس طرح کا بھی ہو اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے، بشرطیکہ وہ دین پر قائم رہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے۔ جب تک اسے معصیت اور نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا تو نہ سننا باقی رہتا ہے، نہ اطاعت کرنا۔‘‘ (بخاري، رقم: ۲۹۵۵، ۷۱۴۴)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کریں ۔ پھر امیر ماتحت لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ضرور دیا ہے، اس پر اس نے کہا: میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی، جب کودنا چاہا تو لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اور ان میں سے بعض نے کہا: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لیے کی تھی، کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہوجائیں ، اس دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ لوگ اس میں کود پڑتے، پھر اس میں سے نہیں نکل سکتے تھے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے۔‘‘ (بخاري، کتاب الاحکام، رقم: ۱۴۵)
تخریج :
السابق۔
مذکورہ حدیث سے امیر کی اطاعت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے اور معلوم ہوا امیر کی اطاعت کرنا فرض ہے، جیسا کہ مثال سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ناک کٹا ہو، سیاہ رنگ ہو اور غلام بھی ہو تو لوگ قدر نہیں کرتے، لیکن شریعت نے کہا ہے کہ امیر جس طرح کا بھی ہو اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے، بشرطیکہ وہ دین پر قائم رہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے۔ جب تک اسے معصیت اور نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا تو نہ سننا باقی رہتا ہے، نہ اطاعت کرنا۔‘‘ (بخاري، رقم: ۲۹۵۵، ۷۱۴۴)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کریں ۔ پھر امیر ماتحت لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ضرور دیا ہے، اس پر اس نے کہا: میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی، جب کودنا چاہا تو لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اور ان میں سے بعض نے کہا: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لیے کی تھی، کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہوجائیں ، اس دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ لوگ اس میں کود پڑتے، پھر اس میں سے نہیں نکل سکتے تھے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے۔‘‘ (بخاري، کتاب الاحکام، رقم: ۱۴۵)