كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدُ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّ رَجُلَيْنِ، ادَّعَيَا دَابَّةً فَأَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا شَاهِدَيْنِ، ((فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ))
امارت كى احكام و مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے ایک چوپائے کے (مالک ہونے کے) متعلق دعویٰ کیا اور دونوں نے دو گواہ بھی پیش کر دئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان نصف نصف کا فیصلہ فرمایا۔
تشریح :
ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک سودے میں دو آدمیوں کا جھگڑا ہوگیا، ان میں سے کسی کے پاس ثبوت نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ قرعہ ڈال کر قسم کھا لیں خواہ انہیں پسند ہو یا ناپسند ہو۔ (دیکھئے شرح حدیث نمبر: ۲۳)
لیکن مذکورہ بالا حدیث میں ہے نصف نصف تقسیم کرنے کا فیصلہ فرمایا، اکثر محققین اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں ۔ تاہم شیخ حازم علی قاضی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ وہ جانور دونوں کے قبضہ و تصرف میں تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد دونوں کے دعووں کی بنیاد پر ہی وہ جانور ان کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ فرما دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدعی اگر گواہ پیش نہیں کرتا اور مدعی علیہ قسم نہیں کھانا چاہتا تو قاضی دونوں کی رضا مندی سے صلح کرا سکتا ہے، اس صلح میں متنازع مال آدھا آدھا تقسیم ہو سکتا ہے۔ اگر وہ صلح پر تیار نہ ہو تو قاضی قسم لے گا، اگر وہ دونوں قسم کھانے سے انکار کریں تو قاضی قرعہ ڈالے جس کے نام قرعہ نکل آئے یا وہ قسم اٹھائے گا یا پھر اس مال سے دستبردار ہوگا۔
تخریج :
سنن ابن ماجة، کتاب الاحکام، باب الرجلان یدعیان الخ، رقم: ۲۳۳۰۔ قال الشیخ حازم: اسناده صحیح۔
ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک سودے میں دو آدمیوں کا جھگڑا ہوگیا، ان میں سے کسی کے پاس ثبوت نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ قرعہ ڈال کر قسم کھا لیں خواہ انہیں پسند ہو یا ناپسند ہو۔ (دیکھئے شرح حدیث نمبر: ۲۳)
لیکن مذکورہ بالا حدیث میں ہے نصف نصف تقسیم کرنے کا فیصلہ فرمایا، اکثر محققین اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں ۔ تاہم شیخ حازم علی قاضی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ وہ جانور دونوں کے قبضہ و تصرف میں تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد دونوں کے دعووں کی بنیاد پر ہی وہ جانور ان کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ فرما دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدعی اگر گواہ پیش نہیں کرتا اور مدعی علیہ قسم نہیں کھانا چاہتا تو قاضی دونوں کی رضا مندی سے صلح کرا سکتا ہے، اس صلح میں متنازع مال آدھا آدھا تقسیم ہو سکتا ہے۔ اگر وہ صلح پر تیار نہ ہو تو قاضی قسم لے گا، اگر وہ دونوں قسم کھانے سے انکار کریں تو قاضی قرعہ ڈالے جس کے نام قرعہ نکل آئے یا وہ قسم اٹھائے گا یا پھر اس مال سے دستبردار ہوگا۔