كِتَابُ الفِتَنِ بَابٌ أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، نا الْمُجَالِدُ، نا الشَّعْبِيُّ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي الْهَاجِرَةِ، وَذَلِكَ فِي وَقْتٍ لَمْ يَكُنْ يَخْرُجُ فِيهِ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَمْ أَقُمْ مَقَامِي هَذَا الْفَزَعَ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنَّ تَمِيمَ الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ، أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ رَهْطًا مِنْ بَنِي عَمِّهِ رَكِبُوا الْبَحْرَ فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ مِنَ الرِّيحِ، فَأَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا، فَقَعَدُوا فِي قُوَيْرِبِ السَّفِينَةِ حَتَّى خَرَجُوا مِنَ الْبَحْرِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَسْوَدَ وَأَهْدَبَ كَثِيرِ الشَّعْرِ لَا يَدْرُونَ أَرَجُلٌ أَمِ امْرَأَةٌ، فَقَالُوا لَهَا: مَنْ أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، فَقَالُوا لَهَا: أَلَا تُخْبِرُنَا بِشَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: مَا بِمُخْبِرُكُمْ وَلَا مُسْتَخْبِرِكُمْ شَيْئًا وَلَكِنَّ هَذَا الدَّيْرَ قَدْ رَأَيْتُمُوهُ فَفِيهِ مَنْ هُوَ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَيَسْتَخْبِرَكُمْ، فَأَتَوْا الدَّيْرَ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ مُظْهِرٍ الْحُزْنَ كَثِيرِ التَّشَكِّي، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ، فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: مِنْ أَيْنَ أَنْتُمْ؟ فَقُلْنَا: مِنَ الشَّامِ، قَالَ: فَمَا فَعَلَتِ الْعَرَبُ؟ أَخْرَجَ نَبِيُّهِمْ بَعْدُ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ؟ قَالَ: نَاوَءَهُ قَوْمٌ فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَهُمُ الْيَوْمَ جَمْعٌ، قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ، قَالَ: فَالْعَرَبُ الْيَوْمَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَكَلِمَتُهُمْ وَاحِدَةٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عُمَانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا: هِيَ صَالِحَةٌ يُطْعَمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ عَيْنُ زُغَرٍ؟ قَالُوا: هِيَ صَالِحَةٌ يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا لِسَقْيِهِمْ وَيَسْقُونَ مِنْهَا زَرْعَهُمْ وَنَخْلَهُمْ، قَالَ: فَمَا فِعْلُ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: هِيَ مَلْأَى يَتَدَفَّقُ جَانِبَاهَا , ثُمَّ قَالَ: فَزَفَرَ زَفْرَةً ثُمَّ حَلَفَ لَوْ قَدِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا مَا تَرَكْتُ أَرْضًا لِلَّهِ إِلَّا وَطِئْتُهُ بِرِجْلِيَّ هَاتَيْنِ غَيْرَ طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ وَلَا سُلْطَانٌ "، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِلَى هَذِهِ انْتَهَى فَرَحِي، هَذِهِ طَيْبَةُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ هَذِهِ لَطَيْبَةُ، وَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ حَرَمِيَ عَلَى الدَّجَّالِ - ثُمَّ حَلَفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَا بِهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ فِي سَهْلٍ وَلَا جَبَلٍ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرُ السَّيْفِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَسْتَطِيعُ الدَّجَّالَ أَنْ يَدْخُلَهَا))
فتنوں کا بیان
باب
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن دوپہر کے وقت تشریف لائے اور یہ وہ وقت تھا کہ آپ اس وقت تشریف نہیں لایا کرتے تھے، آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے، تو فرمایا: ’’لوگو! میں اس وقت اس جگہ کوئی ترغیب و ترہیب کی بات بتانے کھڑا نہیں ہوا، لیکن تمیم داری میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے ایک ایسی خبر بتائی کہ میں خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی وجہ سے قیلولہ بھی نہیں کر سکا، میں نے چاہا کہ میں تمہارے نبی کی خوشی کو تم تک بھی پہنچاؤں ، وہ میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ میرے کچھ چچا زادوں نے بحری سفر کیا، انہیں طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور انہیں ایک غیر معروف جزیرے تک پہنچا دیا، وہ چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہوئے کنارے پر پہنچے، وہاں انہوں نے بڑی بڑی پلکوں والی، گھنے بالوں والی، سیاہ فام چیز دیکھی، وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ آدمی ہے یا عورت، انہوں نے اسے کہا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں ، انہوں نے اسے کہا: کیا تم ہمیں کسی چیز کے متعلق نہیں بتاؤ گی؟ اس نے کہا: میں تمہیں کسی چیز کے متعلق بتاؤں گی نہ تم سے پوچھوں گی، لیکن یہ مندر جس کے تم قریب ہو وہاں ایک ہے جسے شوق ہے کہ وہ تمہیں کچھ بتائے اور تم سے کچھ پوچھے، (تو وہ وہاں جائے) وہ مندر میں گئے تو انہوں نے وہاں ایک چیز کو خوب جکڑے ہوئے دیکھا، اس سے بہت رنج وغم ظاہر ہو رہا ہے اور بہت ہائے ہائے کر رہا ہے، انہوں نے اسے سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا، پھر انہیں کہا: تم کہاں سے ہو؟ ہم نے کہا: شام سے، اس نے کہا: عربوں کا کیا حال ہے؟ کیا ان کا نبی ظاہر ہو چکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ، اس نے کہا: اس کا کیا حال ہے؟ قوم نے اس کا مقابلہ کیا تو اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا فرمایا۔ اس نے کہا: عربوں کی آج یہ حالت ہے کہ ان کا معبود ایک ہے، ان کا کلمہ ایک ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ۔ اس نے کہا: یہ ان کے لیے بہتر ہے، اس نے کہا: عمان اور بیسان کے درمیان نخلستان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ٹھیک ہے ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے کہا: زغر چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ٹھیک ہے، وہاں کے باشندے خود بھی پانی پیتے ہیں اور اس میں سے اپنی کھیتیاں اور نخلستان سیراب کرتے ہیں ، اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ بھرا ہوا ہے۔ دونوں کناروں سے کثرت آب کی وجہ سے اچھل رہا ہے، اس نے ٹھنڈی سانس لی، پھر قسم اٹھا کر کہا: اگر مجھے اس قید سے رہائی مل گئی تو میں ساری زمین اپنے قدموں تلے روند ڈالوں گا، پھر ٹھنڈی سانس لی اور کہا: سوائے طیبہ (مدینہ منورہ) کے، اس پر میرا کوئی بس نہیں چلے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ سن کر میری خوشی کی انتہا ہوگئی، یہ طیبہ ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہی طیبہ ہے، اللہ نے میرے حرم کو دجال پر حرام قرار دے دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی، قیامت تک کے لیے فرشتہ تلوار سونتے کھڑا ہے، دجال اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘
تخریج : انظر ماقبله۔