كِتَابُ الفِتَنِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طاوسٍ، عَنْ أُمِّ مَالِكٍ الْبَهْزِيَّةِ قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِتَنَ فَقَالَ: ((خَيْرُكُمْ فِيهَا أَوْ خَيْرُ النَّاسِ رَجُلٌ يَعْزِلُ فِي مَالِهِ يَعْبُدُ رَبَّهُ وَيُعْطِي حَقَّهُ، وَرَجُلٌ يُخِيفَهُ الْعَدُوُّ وَيُخِيفَهُمْ))
فتنوں کا بیان
باب
ام مالک البہزیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا، تو فرمایا: ’’ان فتنوں میں تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنا مال لے کر الگ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص دشمن جس سے پوشیدہ رہے اور وہ ان سے پوشیدہ رہے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا فتنوں کے زمانہ میں بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اللہ ذوالجلال کی عبادت کریں ، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال چند بھیڑ بکریاں ہوں جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات میں پھرتا رہے، اپنا دین لے کر فتنوں سے بچنے کے لیے بھاگتا پھرے۔‘‘ (بخاري، رقم:۱۹)
یہ اس وقت فتنوں کی بات ہے جب دین بچانا مشکل ہوجائے، حرام میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، تب الگ تھلگ ہونا بہتر ہے۔ وگرنہ اسلام رہبانیت کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ لوگوں سے مل جل کر رہنے کا حکم دیتا ہے۔ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی تکلیف پر صبر کرتا ہے، اس سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا، نہ ان کی تکلیف پر صبر کرتا ہے۔ ‘‘
(سنن ابن ماجة، رقم: ۴۰۳۲۔ سلسلة الصحیحة ، رقم: ۹۳۹)
تخریج :
مسند احمد: ۱؍ ۵۶۱ قال الارناؤط: صحیح لغیرهٖ۔ مستدرك حاکم: ۴؍ ۴۹۳۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۲۹۲۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا فتنوں کے زمانہ میں بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اللہ ذوالجلال کی عبادت کریں ، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال چند بھیڑ بکریاں ہوں جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات میں پھرتا رہے، اپنا دین لے کر فتنوں سے بچنے کے لیے بھاگتا پھرے۔‘‘ (بخاري، رقم:۱۹)
یہ اس وقت فتنوں کی بات ہے جب دین بچانا مشکل ہوجائے، حرام میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، تب الگ تھلگ ہونا بہتر ہے۔ وگرنہ اسلام رہبانیت کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ لوگوں سے مل جل کر رہنے کا حکم دیتا ہے۔ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی تکلیف پر صبر کرتا ہے، اس سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا، نہ ان کی تکلیف پر صبر کرتا ہے۔ ‘‘
(سنن ابن ماجة، رقم: ۴۰۳۲۔ سلسلة الصحیحة ، رقم: ۹۳۹)