كِتَابُ الفِتَنِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُوسَى الْقَارِئُ، عَنْ زَائِدَةَ، نا ابْنُ خُثَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْأَشْعَرِيَّةِ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَيْنَ أَظْهَرِ أَصْحَابِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: ((إِنِّي أُحَذِّرُكُمُ الْمَسِيحَ وَأُنْذِرُكُمُوهُ، وَكُلُّ نَبِيٍّ قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، وَإِنَّهُ فِيكُمْ أَيَّتُهَا الْأُمَّةُ، وَإِنِّي أَجْلِيهِ بِصِفَةٍ لَمْ يُجْلِهَا أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي، يَكُونُ قَبْلَ خُرُوجِهِ سِنِينَ خَمْسٍ جَدْبَةٌ حَتَّى يَهْلِكُ فِيهَا كُلُّ ذَاتِ حَافِرٍ)) ، فَنَادَاهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُجْزِئُ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: " مَا يُجْزِئُ الْمَلَائِكَةَ، ثُمَّ يَخْرُجُ وَهُوَ أَعْوَرُ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبٌ كَافِرٌ، يَقْرَأُهُ كُلُّ أُمِّيٍّ وَكَاتِبٍ، أَكْثَرُ مَنْ يَتَّبِعُهُ الْيَهُودُ وَالْأَعْرَابُ وَالنِّسَاءُ، تَرَى السَّمَاءَ تُمْطِرُ وَلَا تُمْطِرُ، وَالْأَرْضُ تُنْبِتُ وَهِيَ لَا تُنْبِتُ، وَيَقُولُ لِلْأَعْرَابِ: مَا تَبْغُونَ مِنِّي؟ أَلَمْ أُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا، أَلَمْ أُرْجِئْ لَكُمْ أَنْعَامَكُمْ شَاخِصَةً دَرَاهَا خَارِجَةٌ خَوَاصِرُهَا دَارَّةٌ أَلْبَانُهَا، قَالَ: فَتَمَثَّلَ لَهُمْ شَيَاطِينُ عَلَى صُورَةِ الْآبَاءِ وَالْإِخْوَانِ وَالْمَعَارَفِ، فَيَأْتِي الرَّجُلُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ أَخِيهِ أَوْ ذِي رَحِمِهِ فَيَقُولُ لَهُ: أَلَسْتَ فُلَانُ أَلَسْتَ تُصَدِّقُنِي، هُوَ رَبُّكَ فَاتَّبِعْهُ، فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، السُّنَّةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَالْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَالْيَوْمُ كَاحْتِرَاقِ السَّعَفَةِ فِي النَّارِ، يَرِدُ كُلَّ مَنْهَلٍ إِلَّا الْمَسْجِدَيْنِ "، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَسَمِعَ بُكَاءَ أَصْحَابِهِ وَشَهِيقَهُمْ، فَرَجَعَ وَقَالَ: ((أَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَاللَّهُ كَافِيكُمْ وَرَسُولُهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي فَاللَّهُ خَلِيفَتِي فِيكُمْ))
فتنوں کا بیان
باب
سیدہ اسماء بنت یزید اشعریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جبکہ آپ اپنے اصحاب کے سامنے تھے: ’’میں تمہیں مسیح دجال سے بچاتا اور آگاہ کرتا ہوں ، اور ہر نبی نے اپنی قوم کو آگاہ کیا ہے، اور اے امت !وہ تم میں ہوگا، میں تمہیں اس کے متعلق اس واضح انداز سے بیان کرتا ہوں کہ کسی نبی نے ویسے اس کے متعلق نہیں بتایا، اس کے نکلنے سے پہلے پانچ سال قحط کے ہوں گے، حتیٰ کہ ان میں تمام چوپائے ہلاک ہو جائیں گے۔‘‘ ایک آدمی نے آپ کو پکارا تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس دن (کھانے کے حوالے سے) مومنوں کے لیے کیا چیز کافی ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز فرشتوں کے لیے کافی ہوتی ہے، پھر وہ نکلے گا جبکہ وہ کانا ہے، اور اللہ کانا نہیں ہے۔ اس کی پیشانی پر کافر لکھا ہوگا، اسے ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ شخص پڑھ لے گا، اس کی پیروی کرنے والے زیادہ تر یہودی، اعرابی اور عورتیں ہوں گی، آسمان سے بارش برستی دیکھو گے جبکہ وہ بارش نہیں برسائے گا، زمین کو اگاتا ہوا دیکھو گے لیکن وہ نہیں اگائے گی، وہ اعراب سے کہے گا: تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ کیا میں نے موسلادھار بارش نہیں برسائی، کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے مویشی زندہ نہیں کر دئیے جو کہ موٹے تازے ہیں اور ان کے کوکھ باہر نکلے ہوئے، تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں ؟‘‘ فرمایا: ’’وہ شیطان ان کے لیے ان کے آباء، بھائیوں اور دوستوں کی تصویریں بن جائیں گے، پس آدمی اپنے باپ، اپنے بھائی یا اپنے رشتے دار کے پاس آئے گا تو اسے کہے گا: کیا تم فلاں نہیں ہو؟ کیا تم میری تصدیق نہیں کرتے؟ وہ تمہارا رب ہے اس کی اتباع کرو، وہ چالیس سال تک رہے گا، سال مہینے کی طرح، مہینہ جمعہ کی طرح، جمعہ دن کی طرح اور دن آگ میں چنگاری کی طرح، وہ دو مسجدوں (مکہ ومدینہ) کے علاوہ ہر گھاٹ پر جائے گا۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ نے اپنے صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کی آہ و بکا سنی تو واپس آگئے اور فرمایا: ’’خوش ہو جاؤ! اگر وہ اس وقت نکلتا ہے کہ میں تم میں موجود ہوں ، تو اللہ اور اس کا رسول تمہارے لیے کافی ہے اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوتا ہے تو پھر اللہ تم میں میرا خلیفہ ہے۔‘‘
تخریج : معجم طبراني کبیر: ۲۴؍ ۱۶۹: مجمع زوائد: باب ماجاء في الدجال: ۷؍ ۶۶۵۔