كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، نا عَوْفٌ، عَنْ خِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كَانَ مُوسَى عَلَيْهِ وَعَلَى نَبِيِّنَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ حَيِيًّا سِتِّيرًا لَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ بَعْضُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ شَيْءٍ بِجِلْدِهِ، إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ أَوْ آفَةٌ، فَدَخَلَ يَغْتَسِلُ وَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ فَعَدَا الْحَجَرُ بِثِيَابِهِ، فَخَرَجَ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِهِ فَرَآهُ بَنُو إِسْرَائِيلُ أَحْسَنَ الرِّجَالِ خَلْقًا وَأَبْرَأَهُ مِمَّا يَقُولُونَ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ﴾ [الأحزاب: 69] الْآيَةَ ".
طہارت اور پاکیزگی کے احکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے، ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کا کوئی حصہ نہیں دیکھا جا سکتا تھا، بنی اسرائیل کے بعض افراد نے انہیں اذیت پہنچائی تو انہوں نے کہا: اس حد تک بدن چھپانا صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے فوطے بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے، پس وہ نہانے لگے اور اپنے کپڑے پتھر پر رکھ دئیے، تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ پڑا، وہ (موسیٰ علیہ السلام ) بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے، بنو اسرائیل نے انہیں (ننگا) دیکھ لیا کہ وہ تو بہترین مرد ہیں، پس اللہ نے ان کی تہمت سے ان کی براء ت ظاہر کر دی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ( علیہ السلام ) کو اذیت دی تھی اور اللہ نے انہیں بری قرار دیا۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ برہنہ حالت میں غسل کرنا جائز ہے جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے غسل کیا اور پیچھے گزرا ہے کہ سیدنا ایوب علیہ السلام نے بھی کیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہلی امتوں کی بات ہے۔ تو پہلی شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں۔ لیکن پہلی امتوں کے جو امور قرآن پاک نے منسوخ ٹھہرائے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی واضح حدیث ملتی ہے جو ان کی شریعت کے متعارض ہے تو وہ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برہنہ حالت میں لوگوں سے مخفی ہو کر نہانا چاہیے نہ کہ لوگوں کے سامنے۔ لوگوں کے سامنے بے لباس ہو کر نہانا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا وہ ایک کھلی جگہ میں کپڑا باندھے بغیر نہا رہا تھا تو آپ منبر پر چڑھے اور اللہ عزوجل کی حمدوثناء بیان کی پھر فرمایا: ’’اللہ عزوجل انتہائی حیا والا اور پردہ پوش ہے، حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے سو تم میں سے جب کوئی غسل کرنے لگے تو پردہ کرے۔‘‘ ( سنن ابي داود، رقم : ۴۰۱۲ اسنادہ صحیح)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بھی ایک ساتھ غسل کرنا ایک دوسرے کے ساتھ برہنہ حالت میں غسل کرنا حرام تھا، لیکن بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کرتے ہوئے اس غیر شرعی فعل کا ارتکاب کیا اور اس کے علاوہ وہ اکثر امور میں شریعت موسوی سے اپنی سرکشی ونافرمانی کی بنیاد پر دور رہتے تھے۔ (ارشاد الساری: ۱؍ ۳۳۱۔ عمدۃ القاری: ۱؍ ۳۸۶)
پتھر کا کپڑے لے کر بھاگنے سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ثابت ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پیغمبر پر الزام لگا تو اللہ ذوالجلال نے اپنے پیغمبر پر اس الزام اور عیب کو دور کرنے کے لیے ایسا کروایا۔ حدیث کے آخر میں جو آیت مبارکہ ہے اس میں ایمان والوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت دینا۔ جیسا کہ ایک موقع پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ جب نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ علیہ السلام غضبناک ہوئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور سرخ ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو، انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی۔ لیکن انہوں نے صبر کیا۔ (مسلم، کتاب الزکاة، باب اعطاء المولفۃ قلوبهم علی الاسلام الخ)
تخریج :
بخاري، کتاب الانبیاء، رقم: ۳۴۰۴۔ مسلم، کتاب الحیض، باب جواز الاغتسال عریانا في الخلوة، رقم: ۳۳۹۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ برہنہ حالت میں غسل کرنا جائز ہے جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے غسل کیا اور پیچھے گزرا ہے کہ سیدنا ایوب علیہ السلام نے بھی کیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہلی امتوں کی بات ہے۔ تو پہلی شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں۔ لیکن پہلی امتوں کے جو امور قرآن پاک نے منسوخ ٹھہرائے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی واضح حدیث ملتی ہے جو ان کی شریعت کے متعارض ہے تو وہ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برہنہ حالت میں لوگوں سے مخفی ہو کر نہانا چاہیے نہ کہ لوگوں کے سامنے۔ لوگوں کے سامنے بے لباس ہو کر نہانا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا وہ ایک کھلی جگہ میں کپڑا باندھے بغیر نہا رہا تھا تو آپ منبر پر چڑھے اور اللہ عزوجل کی حمدوثناء بیان کی پھر فرمایا: ’’اللہ عزوجل انتہائی حیا والا اور پردہ پوش ہے، حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے سو تم میں سے جب کوئی غسل کرنے لگے تو پردہ کرے۔‘‘ ( سنن ابي داود، رقم : ۴۰۱۲ اسنادہ صحیح)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بھی ایک ساتھ غسل کرنا ایک دوسرے کے ساتھ برہنہ حالت میں غسل کرنا حرام تھا، لیکن بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کرتے ہوئے اس غیر شرعی فعل کا ارتکاب کیا اور اس کے علاوہ وہ اکثر امور میں شریعت موسوی سے اپنی سرکشی ونافرمانی کی بنیاد پر دور رہتے تھے۔ (ارشاد الساری: ۱؍ ۳۳۱۔ عمدۃ القاری: ۱؍ ۳۸۶)
پتھر کا کپڑے لے کر بھاگنے سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ثابت ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پیغمبر پر الزام لگا تو اللہ ذوالجلال نے اپنے پیغمبر پر اس الزام اور عیب کو دور کرنے کے لیے ایسا کروایا۔ حدیث کے آخر میں جو آیت مبارکہ ہے اس میں ایمان والوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت دینا۔ جیسا کہ ایک موقع پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ جب نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ علیہ السلام غضبناک ہوئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور سرخ ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو، انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی۔ لیکن انہوں نے صبر کیا۔ (مسلم، کتاب الزکاة، باب اعطاء المولفۃ قلوبهم علی الاسلام الخ)