كِتَابُ الفِتَنِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، صَاحِبُ الدَّسْتُوَائِيِّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَيْتِهَا وَأَسْمَاءُ تَعْجِنُ عَجِينَهَا، إِذْ ذَكَرُوا الدَّجَّالَ فَقَالَ: " إِنَّ قَبْلَ خُرُوجِهِ عَامًا يُمْسِكُ السَّمَاءُ فِيهِ ثُلُثَ قَطْرِهَا، وَالْأَرْضُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا، وَالْعَامُ الثَّانِي يُمْسِكُ السَّمَاءُ ثُلُثَيْ قَطْرِهَا، وَالْأَرْضُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا، وَالْعَامُ الثَّالِثُ يُمْسِكُ السَّمَاءُ قَطْرَهَا كُلَّهُ، وَالْأَرْضُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ، حَتَّى لَا يَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ وَلَا ذَاتُ ظُفُرٍ، وَإِنَّ أَعْظَمَ فِتْنَةٍ أَنْ يَقُولَ لِلرَّجُلِ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ أَبَاكَ أَوْ أَخَاكَ، أَتَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ لِلْأَعْرَابِيِّ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ إِبِلَكَ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ أَسْنِمَةً، وَأَعْظَمَهَا ضُرُوعًا، أَتَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُخَيَّلُ لَهُمُ الشَّيَاطِينُ، أَمَا إِنَّهُ لَا يُحْيِي الْمَوْتَى "، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَعْضِ حَاجَتِهِ ثُمَّ جَاءَ وَأَصْحَابُهُ يَبْكُونَ، فَأَخَذَ بِلَحْيَيِ الْبَابِ وَقَالَ: ((مَهْيَمْ؟)) فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدَّثْتَهُمْ عَنِ الدَّجَّالِ مَا يَشُقُّ عَلَيْهِمْ، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَنَجْزَعُ وَهَذَا عِنْدَنَا فَكَيْفَ إِذْ ذَاكَ؟ فَقَالَ: ((إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي فَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ)) . قَالَتْ أَسْمَاءُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا يُجْزِئُ مِنَ الطَّعَامِ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: " مَا يُجْزِئُ أَهْلَ السَّمَاءِ: التَّسْبِيحُ وَالتَّقْدِيسُ "
فتنوں کا بیان
باب
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف فرما تھے اور اسماء آٹا گوندھ رہی تھیں ، کہ انہوں نے دجال کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے خروج سے ایک سال پہلے آسمان سے تہائی بارش رک جائے گی، زمین تہائی نباتات نہیں اگائے گی، دوسرے سال آسمان دو تہائی بارش روک لے گا اور زمین دو تہائی نباتات نہیں اگائے گی، اور تیسرے سال آسمان ساری بارش روک لے گا اور زمین ہر قسم کی نباتات نہیں اگائے گی، حتیٰ کہ کوئی گائے وغیرہ نہیں رہے گی، سب سے بڑا فتنہ یہ ہوگا کہ وہ کسی آدمی سے کہے گا: مجھے بتاؤ کہ اگر میں تمہاری خاطر تمہارے باپ یا تمہارے بھائی کو زندہ کردوں ، تو کیا تم جان لو گے کہ میں تمہارا رب ہوں ؟ وہ کہے گا: ہاں ، وہ اعرابی سے کہے گا: مجھے بتاؤ اگر میں تمہارا اونٹ جو پہلے سے بھی زیادہ لمبی کوہان والا اور پہلے سے ز یادہ بڑے تھنوں والا ہو زندہ کردوں ، تو کیا تم جان لو گے کہ میں تمہارا رب ہوں ؟ وہ کہے گا: ہاں ، پس وہ شیاطین کو ان کی صورت میں بنائے گا، جبکہ وہ تو مردوں کو زندہ نہیں کر سکتا۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام کی خاطر باہر تشریف لے گئے، پھر آپ آئے تو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رو رہے تھے، آپ نے دروازے کی چوکھٹ پکڑ کر فرمایا: ’’خاموش ہو جاؤ۔‘‘ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! دجال کا ان سے ذکر ہوا ہے، جو ان پر گراں گزرا ہے، اللہ کی قسم! ہم گھبرا رہے ہیں جبکہ آپ ہمارے پاس ہیں ، جب آپ نہیں ہوں گے تو پھر کیا حالت ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ (دجال) اس وقت نکلتا ہے کہ میں تم میں موجود ہوں تو میں اس کے خلاف بحث ومباحثہ کر لوں گا، اور اگر وہ میرے بعد نکلتا ہے تو اللہ ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے۔‘‘ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس دن کھانے کے حوالے سے کیا چیز کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو آسمان والوں کو تسبیح و تقدیس میں کفایت کرتی ہے۔‘‘
تخریج : مسند احمد: ۶؍ ۴۵۳۔ اسناده ضعیف۔ فیه شهر بن حوشب ضعیف۔ انظر التاریخ الکبیر: ۴؍ ۲۷۴۰۔ میزان الاعتدال: ۲؍ ۲۸۳۔