مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 850

كِتَابُ الفِتَنِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ الْحَدَّانِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ ذِئْبٌ إِلَى رَاعِي غَنَمٍ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً فَطَلَبَهُ الرَّاعِي فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ فَصَعِدَ الذِّئْبُ عَلَى تَلٍّ فَأَقْعَى وَاسْتَنْفَرَ وَقَالَ: عَمِدْتُ إِلَى رِزْقٍ رَزَقَنِيهِ اللَّهُ أَخَذْتَهُ فَانْتَزَعْتَهُ مِنِّي، فَقَالَ الرَّجُلُ: بِاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ ذِئْبًا يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ الذِّئْبُ: أَوْ أَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ رَجُلٌ بَيْنَ النَّخْلَاتِ بَيْنَ الْحَرَّتَيْنِ يُخْبِرُكُمْ بِمَا مَضَى وَمَا هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكُمْ، قَالَ: وَكَانَ الرَّجُلُ يَهُودِيًّا، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَأَسْلَمَ فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّهَا أَمَارَةٌ مِنْ أَمَارَاتٍ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ قَدْ أَوْشَكَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ، ثُمَّ يَرْجِعَ فَيُحَدِّثَهُ نَعْلَاهُ وَسَوْطُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 850

فتنوں کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ایک بھیڑیا بکریوں کے چرواہے کے پاس آیا، اس نے ریوڑ میں سے ایک بکری پکڑ لی، پس چرواہا اس کے پیچھے گیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا، بھیڑیا ایک ٹیلے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور کہا: میں نے ایک رزق؍ روزی کا ارادہ کیا تھا جو اللہ نے مجھے عطا کی، پس تو نے اسے مجھ سے چھین لیا، اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے آج کی طرح بھیڑیے کو کلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اس بھیڑیے نے کہا: کیا اس سے زیادہ عجیب وہ آدمی نہیں جو دو پہاڑی میدانوں کے درمیان نخلستانوں کے درمیان ہے جو تمہیں گزرے ہوئے اور پیش آمدہ واقعات کے متعلق بتاتا ہے، راوی نے بیان کیا: وہ آدمی یہودی تھا، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا اور آپ کو بتایا تو اسلام قبول کرلیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور فرمایا: ’’یہ قیامت کے وقوع ہونے سے پہلے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، قریب ہے کہ آدمی گھر سے نکلے اور پھر وہ واپس آئے، تو اس کے جوتے اسے باتیں بتائیں اور اس کا کوڑا اسے بتائے کہ اس کے بعد اس کے گھر والوں نے کیا کام کیا ہے۔‘‘
تشریح : مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے کمزور ہے، اس میں شہر بن حوشب صُدُوْقٌ کَثِیْرُ الْاَرْسَالِ وَالْاَوْهَامِ:ہے (تقریب تہذیب: ۲۸۳۰ ) لیکن اس کے شواہد صحیحین میں ہیں ۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ بھیڑیا آگیا اور ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا، چرواہے نے اس سے بکری چھڑانی چاہی تو بھیڑیا بول پڑا: درندوں والے دن میں اس کی رکھوالی کرنے والا کون ہوگا جس دن میرے سوا اور کوئی چرواہا نہ ہوگا۔ ‘‘ (صحیح بخاري، رقم: ۳۶۶۳۔ مسلم، رقم: ۲۳۸۸) معلوم ہوا اللہ ذوالجلال قادر ہے وہ چاہے تو جانوروں کو بھی بولنے کی طاقت دے۔ درندوں کے راج کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں ایک دن ایسا آئے گا کہ بکریوں کے چرواہے اور ان کی نگرانی کرنے والے ختم ہو جائیں گے تو پھر درندے ہوں گے یا پھر بکریاں ہوں گی اور ان بکریوں کو درندے جیسے چاہیں گے چیر پھاڑ کریں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: یہ اس وقت ہوگا جب لوگ بہت سے فتنوں میں مشغول ہوں گے۔ جانوروں کی حفاظت چھوڑ کر اپنی جانوں کی فکر میں پڑے ہوں گے، اس وقت درندے چیر پھاڑ کریں گے۔ اور بھیڑئیے ان پر مسلط ہو جائیں گے۔ ( فتح الباري: ۷؍ ۲۷)
تخریج : مسند احمد: ۲؍ ۳۰۶ قال الارناؤط: اسناده ضعیف لضعف شهر بن حوشب۔ دلائل النبوة لأبی نعیم، رقم: ۲۷۱، البغوي، رقم: ۴۲۸۲۔ مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے کمزور ہے، اس میں شہر بن حوشب صُدُوْقٌ کَثِیْرُ الْاَرْسَالِ وَالْاَوْهَامِ:ہے (تقریب تہذیب: ۲۸۳۰ ) لیکن اس کے شواہد صحیحین میں ہیں ۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ بھیڑیا آگیا اور ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا، چرواہے نے اس سے بکری چھڑانی چاہی تو بھیڑیا بول پڑا: درندوں والے دن میں اس کی رکھوالی کرنے والا کون ہوگا جس دن میرے سوا اور کوئی چرواہا نہ ہوگا۔ ‘‘ (صحیح بخاري، رقم: ۳۶۶۳۔ مسلم، رقم: ۲۳۸۸) معلوم ہوا اللہ ذوالجلال قادر ہے وہ چاہے تو جانوروں کو بھی بولنے کی طاقت دے۔ درندوں کے راج کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں ایک دن ایسا آئے گا کہ بکریوں کے چرواہے اور ان کی نگرانی کرنے والے ختم ہو جائیں گے تو پھر درندے ہوں گے یا پھر بکریاں ہوں گی اور ان بکریوں کو درندے جیسے چاہیں گے چیر پھاڑ کریں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: یہ اس وقت ہوگا جب لوگ بہت سے فتنوں میں مشغول ہوں گے۔ جانوروں کی حفاظت چھوڑ کر اپنی جانوں کی فکر میں پڑے ہوں گے، اس وقت درندے چیر پھاڑ کریں گے۔ اور بھیڑئیے ان پر مسلط ہو جائیں گے۔ ( فتح الباري: ۷؍ ۲۷)