مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 846

كِتَابُ الفِتَنِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ أَبُو هُرَيْرَةَ مَعَ مُعَاوِيَةَ أَتَيْنَاهُ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقَالُوا لَهُ: إِنَّ هَؤُلَاءِ أَتَوْكَ يَسْأَلُونَكَ أَنْ تُحَدِّثَهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: ((حُمْرُ الْوُجُوهِ صِغَارُ الْأَعْيُنِ)) ، وَقَالَ: ((خِلْفَةُ فَمِ الصَّائِمِ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 846

فتنوں کا بیان باب قیس بن ابو حازم نے بیان کیا: جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئے تو ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، پس ہم ان کے پاس گئے تو انہوں نے انہیں کہا: یہ آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ آپ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کریں ، پس انہوں نے اسی سابقہ حدیث کی مثل ذکر کیا، اور یہ بیان کیا: ’’سرخ چہروں والے، چھوٹی آنکھوں والے۔‘‘ اور فرمایا: ’’روزہ دار کے منہ کی بو۔‘‘
تشریح : (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے نزدیک مسلمانوں کی ایسی عجمی قوم سے لڑائی ہوگی۔ ’’کَانَ وُجُوْهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ‘‘....’’گویا کہ ان کے چہرے تہہ شدہ ڈھال کی طرح ہوں گے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المجان جمع ہے مجن کی اور مجن کے معنی الترس یعنی ڈھال کے ہیں اور ڈھال سے اپنے پورے بدن کو تیر (وغیرہ) سے محفوظ رکھا جاتا ہے، لہٰذا ان کے چہروں کو اس معنی میں تشبیہ دی گئی کہ جو چوڑے اور ڈھال کی طرح گول ہوں گے۔ اور مطرقہ سے ان کے چہروں کو اس معنی میں تشبیہ دی گئی کہ وہ بہت زیادہ موٹے اور گوشت والے ہوں گے۔ ( فتح الباري: ۶؍ ۷۴۳۔ شرح مسلم للنووی: ص۲۰۰۹) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان سے مراد اہل بارز یعنی کرد ہیں ۔ (بخاري، رقم: ۳۵۹۱) بعض نے اس سے قوم ترک کو مراد لیا ہے۔ جیسا کہ حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے اور انہوں نے جس قوم کی یہ صفات بیان فرمائی ہیں ، وہ ساری کی ساری صفات ترک قوم میں پائی جاتی ہیں یعنی سرخ چہرے والے، چھوٹی آنکھوں والے، چپٹی ناک والے، بال کے جوتے پہننے والے اور ان کے چہرے ایسے ہیں جیسے کوئی ڈھال ہوتی ہے اور اس قوم سے مسلمانوں نے کئی مرتبہ لڑائی کی ہے۔ (طرح التثریب: ۷؍ ۲۲۴۔ شرح مسلم للنووي: ص۲۰۱۰) (۲).... مذکورہ حدیث میں ہاتھ سے کمانے کی ترغیب دی گئی ہے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ معلوم ہوا محنت کرنا اور کوئی پیشہ اختیار کرنا، یہ سوال کرنے کی ذلت سے بہتر ہے، اگرچہ وہ پیشہ لوگوں کی نظروں میں حقیر ہی کیوں نہ ہو۔ انبیاء کرام نے ذریعہ معاش کے طور پر مختلف پیشے اختیار کیے جسے داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے، لوہے کی زرہیں بنایا کرتے تھے۔ (۳).... معلوم ہوا کہ آدمی کو سب سے پہلے اپنی جان اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک دینار ہے، آپ نے فرمایا: ’’اپنے اوپر خرچ کر‘‘، پھر اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے خادم پر خرچ کر‘‘ یا فرمایا: ’’اپنی اولاد پر خرچ کر۔‘‘ (ادب المفرد: ۷۵۰) (۴).... مذکورہ حدیث سے روزے دار کی فضیلت کا بھی اثبات ہوتا ہے۔ خالی معدہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بو کستوری سے بڑھ کر ہے۔
تخریج : السابق۔ (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے نزدیک مسلمانوں کی ایسی عجمی قوم سے لڑائی ہوگی۔ ’’کَانَ وُجُوْهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ‘‘....’’گویا کہ ان کے چہرے تہہ شدہ ڈھال کی طرح ہوں گے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المجان جمع ہے مجن کی اور مجن کے معنی الترس یعنی ڈھال کے ہیں اور ڈھال سے اپنے پورے بدن کو تیر (وغیرہ) سے محفوظ رکھا جاتا ہے، لہٰذا ان کے چہروں کو اس معنی میں تشبیہ دی گئی کہ جو چوڑے اور ڈھال کی طرح گول ہوں گے۔ اور مطرقہ سے ان کے چہروں کو اس معنی میں تشبیہ دی گئی کہ وہ بہت زیادہ موٹے اور گوشت والے ہوں گے۔ ( فتح الباري: ۶؍ ۷۴۳۔ شرح مسلم للنووی: ص۲۰۰۹) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان سے مراد اہل بارز یعنی کرد ہیں ۔ (بخاري، رقم: ۳۵۹۱) بعض نے اس سے قوم ترک کو مراد لیا ہے۔ جیسا کہ حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے اور انہوں نے جس قوم کی یہ صفات بیان فرمائی ہیں ، وہ ساری کی ساری صفات ترک قوم میں پائی جاتی ہیں یعنی سرخ چہرے والے، چھوٹی آنکھوں والے، چپٹی ناک والے، بال کے جوتے پہننے والے اور ان کے چہرے ایسے ہیں جیسے کوئی ڈھال ہوتی ہے اور اس قوم سے مسلمانوں نے کئی مرتبہ لڑائی کی ہے۔ (طرح التثریب: ۷؍ ۲۲۴۔ شرح مسلم للنووي: ص۲۰۱۰) (۲).... مذکورہ حدیث میں ہاتھ سے کمانے کی ترغیب دی گئی ہے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ معلوم ہوا محنت کرنا اور کوئی پیشہ اختیار کرنا، یہ سوال کرنے کی ذلت سے بہتر ہے، اگرچہ وہ پیشہ لوگوں کی نظروں میں حقیر ہی کیوں نہ ہو۔ انبیاء کرام نے ذریعہ معاش کے طور پر مختلف پیشے اختیار کیے جسے داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے، لوہے کی زرہیں بنایا کرتے تھے۔ (۳).... معلوم ہوا کہ آدمی کو سب سے پہلے اپنی جان اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک دینار ہے، آپ نے فرمایا: ’’اپنے اوپر خرچ کر‘‘، پھر اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے خادم پر خرچ کر‘‘ یا فرمایا: ’’اپنی اولاد پر خرچ کر۔‘‘ (ادب المفرد: ۷۵۰) (۴).... مذکورہ حدیث سے روزے دار کی فضیلت کا بھی اثبات ہوتا ہے۔ خالی معدہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بو کستوری سے بڑھ کر ہے۔