كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ مِغْوَلٍ، يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ: خَرَجَ بُرَيْدَةُ عِشَاءً فَلَقِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ الْمَسْجِدَ وَإِذَا بِرَجُلٍ يَدْعُو وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ حَيُّ أَنْتَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَكَ كُفُوًا أَحَدٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى))
دُعاؤں کےفضائل و مسائل
باب
عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا: بریدہ رضی اللہ عنہا عشاء کے وقت باہر نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں مسجد میں داخل کر دیا، وہاں ایک آدمی ان الفاظ کے ساتھ دعا کر رہا تھا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ واحد یکتا ہے، بے نیاز ہے، جس کی اولاد ہے نہ والدین اور نہ ہی کوئی اس کی برابری کرنے والا ہے۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ کے اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ سوال کیا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اسم اعظم کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ بشرطیکہ قبولیت دعا کے لیے کوئی چیز مانع نہ ہو، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حرام کھانے والے اور خالی دل سے دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف:۱۸۰) .... ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں ، سو ان ناموں سے اللہ کو پکارا کرو۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں ، وہ سورہ اخلاص میں ذکر کردہ صفات ہیں جن میں توحید کا جامع بیان ہے:
(۱) اِنَّكَ اَنْتَ اللّٰهُ (۲) اَلْاَحَدُ (۳) اَلصَّمَدُ (۴) لَمْ یَلِدْ (۵) وَلَمْ یُوْلَدْ (۶) وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًّا اَحَدٌ۔
سورہ اخلاص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ قرآن کے تہائی کے برابر ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسم اعظم کے متعلق سند کے لحاظ سے یہ حدیث سب سے راجح ہے۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ہمیں اپنی دعائیں اس عظیم الشان کلمہ کے ساتھ آراستہ کرنی چاہئیں ، تاکہ انہیں قبولیت کا شرف حاصل ہوجائے۔
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الصلاة، باب الدعاء، رقم: ۱۴۹۳۔ سنن ترمذي ، ابواب الدعوات، باب جامع الدعوات الخ، رقم: ۳۴۳۵۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۳۸۵۷۔ سنن نسائي ، رقم: ۲۴۹۳۔ قال الشیخ الالباني: صحیح۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اسم اعظم کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ بشرطیکہ قبولیت دعا کے لیے کوئی چیز مانع نہ ہو، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حرام کھانے والے اور خالی دل سے دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف:۱۸۰) .... ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں ، سو ان ناموں سے اللہ کو پکارا کرو۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں ، وہ سورہ اخلاص میں ذکر کردہ صفات ہیں جن میں توحید کا جامع بیان ہے:
(۱) اِنَّكَ اَنْتَ اللّٰهُ (۲) اَلْاَحَدُ (۳) اَلصَّمَدُ (۴) لَمْ یَلِدْ (۵) وَلَمْ یُوْلَدْ (۶) وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًّا اَحَدٌ۔
سورہ اخلاص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ قرآن کے تہائی کے برابر ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسم اعظم کے متعلق سند کے لحاظ سے یہ حدیث سب سے راجح ہے۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ہمیں اپنی دعائیں اس عظیم الشان کلمہ کے ساتھ آراستہ کرنی چاہئیں ، تاکہ انہیں قبولیت کا شرف حاصل ہوجائے۔