كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، صَاحِبُ الدَّسْتُوَائِيِّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلَاسٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَاغْسِلُوهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ إِحْدَاهُنَّ بِالتُّرَابِ
طہارت اور پاکیزگی کے احکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھوؤ اور ان میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو اس کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ جمہور کا موقف ہے کہ سات مرتبہ دھونا واجب ہے، احناف کہتے ہیں: سات مرتبہ دھونا مستحب اور تین مرتبہ دھونا واجب ہے۔ (بدایة المجتهد: ۱؍ ۸۳۔ المغنی: ۱؍ ۵۲) احناف کا موقف سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ (سنن دارقطنی: ۱؍ ۸۳) لیکن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سات مرتبہ دھونے کا قول بھی منقول ہے۔
(نیل الاوطار: ۱؍ ۷۶۔ سبل السلام: ۱؍ ۲۸)
لہٰذا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی وہی قول اختیار کیا جائے جو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے زیادہ قریب ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے، کیا پہلے مٹی کے ساتھ یا درمیان میں یا آخر میں دھونا چاہیے؟
صحیح مسلم میں ہے: ((اُوْلَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)) (مسلم، رقم : ۲۷۹) .... ’’پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ۔‘‘
جامع ترمذی میں ہے: ((اُخْرَاهُنَّ اَوْ اُوْلَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)) ( سنن ترمذي، رقم : ۹۱).... ’’آخری مرتبہ یا پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ۔‘‘
زیادہ بہتر یہ ہے کہ پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے، کیونکہ صحیح مسلم میں پہلی مرتبہ دھونے کا حکم ہے۔ اور اس میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا کتے کا صرف لعاب ہی نجس ہے یا اس کا مکمل جسم بھی؟ اس کے متعلق شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ کتا اور اس کی ہر چیز نجس ہے۔ (المغنی: ۱؍ ۵۲)
مالکیہ کا کہنا ہے کہ نہ کتا نجس اور نہ ہی اس کا لعاب۔ (الشر ح الصغیر: ۱؍ ۴۳)
احناف کا موقف یہ ہے کہ کتے کا صرف لعاب، منہ اور پاخانہ نجس ہے اس کے علاوہ بذات خود کتا نجس نہیں ہے کیونکہ اس سے پہرے داری وغیرہ کا کام لیا جاتا ہے۔ (فتح القدیر: ۱؍ ۶۴)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے جس بات کو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی وجہ سے کتے کا لعاب ہی نجس ہے علاوہ ازیں اس کے باقی اعضاء مثلاً بال، گوشت اور کھال وغیرہ پاک ہیں کیونکہ اصل طہارت ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ (السیل الجرار: ۱؍ ۳۷)
تخریج :
مسلم، کتاب الطهارة، باب حکم ولوغ الکلب، رقم : ۲۷۹۔ سنن ابي داود، رقم: ۷۳۔ سنن نسائي، رقم: ۳۳۵۔ سنن کبریٰ بیهقی: ۱؍۲۴۱۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو اس کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ جمہور کا موقف ہے کہ سات مرتبہ دھونا واجب ہے، احناف کہتے ہیں: سات مرتبہ دھونا مستحب اور تین مرتبہ دھونا واجب ہے۔ (بدایة المجتهد: ۱؍ ۸۳۔ المغنی: ۱؍ ۵۲) احناف کا موقف سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ (سنن دارقطنی: ۱؍ ۸۳) لیکن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سات مرتبہ دھونے کا قول بھی منقول ہے۔
(نیل الاوطار: ۱؍ ۷۶۔ سبل السلام: ۱؍ ۲۸)
لہٰذا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی وہی قول اختیار کیا جائے جو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے زیادہ قریب ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے، کیا پہلے مٹی کے ساتھ یا درمیان میں یا آخر میں دھونا چاہیے؟
صحیح مسلم میں ہے: ((اُوْلَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)) (مسلم، رقم : ۲۷۹) .... ’’پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ۔‘‘
جامع ترمذی میں ہے: ((اُخْرَاهُنَّ اَوْ اُوْلَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)) ( سنن ترمذي، رقم : ۹۱).... ’’آخری مرتبہ یا پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ۔‘‘
زیادہ بہتر یہ ہے کہ پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے، کیونکہ صحیح مسلم میں پہلی مرتبہ دھونے کا حکم ہے۔ اور اس میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا کتے کا صرف لعاب ہی نجس ہے یا اس کا مکمل جسم بھی؟ اس کے متعلق شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ کتا اور اس کی ہر چیز نجس ہے۔ (المغنی: ۱؍ ۵۲)
مالکیہ کا کہنا ہے کہ نہ کتا نجس اور نہ ہی اس کا لعاب۔ (الشر ح الصغیر: ۱؍ ۴۳)
احناف کا موقف یہ ہے کہ کتے کا صرف لعاب، منہ اور پاخانہ نجس ہے اس کے علاوہ بذات خود کتا نجس نہیں ہے کیونکہ اس سے پہرے داری وغیرہ کا کام لیا جاتا ہے۔ (فتح القدیر: ۱؍ ۶۴)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے جس بات کو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی وجہ سے کتے کا لعاب ہی نجس ہے علاوہ ازیں اس کے باقی اعضاء مثلاً بال، گوشت اور کھال وغیرہ پاک ہیں کیونکہ اصل طہارت ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ (السیل الجرار: ۱؍ ۳۷)