كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ ذَكَرَ اللَّهَ فِي نَفْسِهِ ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي نَفْسِهِ، وَمَنْ ذَكَرَ اللَّهَ فِي مَلَإِ ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي مَلَإِ هُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمَلَإِ الَّذِي ذَكَرَهُ فِيهِمْ، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيْهِ شِبْرًا تَقَرَّبَ إِلَيْهِ ذِرَاعَا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيْهِ ذِرَاعَا تَقَرَّبَ مِنْهُ بَاعَا، وَمَنْ أَتَاهُ يَمْشِي أَتَاهُ هَرْوَلَةً، وَمَنْ أَتَاهُ هَرْوَلَةً أَتَاهُ سَعْيًا)) .
دُعاؤں کےفضائل و مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اللہ کو اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو اللہ اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے، جو اللہ کو کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو اللہ اسے اپنے ہاں جماعت میں یاد کرتا ہے جو کہ اس جماعت سے بہتر ہے جس جماعت میں اس نے اسے یاد کیا تھا، جو ایک بالشت اس کے قریب آتا ہے تو وہ ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے، جو ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے تو وہ دو ہاتھ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہے، جو چل کر اس کی طرف آتا ہے تو وہ تیز چل کر اس کی طرف آتا ہے، اور جو تیز چل کر اس کی طرف آتا ہے تو وہ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے۔‘‘
تشریح :
(۱).... مذکورہ حدیث سے ذکر الٰہی کرنے والوں کی فضیلت واضح ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ ذوالجلال یاد کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ﴾ (البقرة: ۱۵۲).... ’’تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا۔‘‘
جماعت میں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ، نماز کے بعد مسنون اذکار یا پھر ایک وعظ ونصیحت کر رہا ہے اور دوسرے سن رہے ہیں ، نہ کہ مروجہ مجالس ذکر جو آج کل بعض لوگوں نے رائج کر رکھی ہیں اور حلقہ بنا کر لوگوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ سبحان الله اتنی دفعہ پڑھو اور فلاں کلمہ اتنی دفعہ پڑھو، یہ درست نہیں ہے۔
جیسا کہ ایک روایت میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں گئے، دیکھا ایک آدمی (سربراہ) ہے اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں ۔ (ہر حلقے میں موجود لوگوں کو کہتا ہے) سو دفعہ لا اله الا الله کہو، تو وہ سو دفعہ لا اله الا الله کہتے ہیں اور وہ کہتا ہے: سو دفعہ سبحان اللہ کہو تو وہ سو دفعہ سبحان اللہ کہتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ جو میں تمہیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمن! یہ کنکریاں ہیں جن کے ساتھ ہم تکبیر، تہلیل اور تسبیح شمار کر رہے ہیں ۔ فرمایا: تو تم اپنی برائیاں شمار کرو۔ میں ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ (سنن دارمي، باب فی کراهیة اخذ الراي، رقم: ۲۰۴)
(۲).... قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عمل سب کا ایک (ہی) ہوتا ہے مگر قبولیت کی زیادتی مومن شخص کے خلوص نیت کے مطابق ہوتی ہے۔ نیز ((مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیْهِ شِبْرًا)) کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو شخص نیت کے اعتبار سے ایک بالشت میرے قریب ہوگا تو میں اسے ایک ہاتھ بڑھنے کی توفیق دوں گا۔ اور اگر عزم واجتہاد (کوشش) کے ذریعہ وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں اسے ہدایت ورعایت کے ذریعہ دو ہاتھ اپنے قریب کر لوں گا۔ اور اگر وہ سب سے اعراض کر کے میری طرف آتا ہے تو میں اس کے راہ حق کی ہر رکاوٹ کو دور کر دوں گا، یہ رب کا اپنے بندے کی طرف دوڑ کر آنے کا معنی ہے۔ جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے: ((وَمَنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُهٗ هَرْوَلَةً)) (مسلم، کتاب الدعوات والاذکار، رقم:۶۸۳۳).... ’’جب میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔‘‘ اس حدیث کے آخری الفاظ کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ایسے عمل کرنے کی توفیق بخشتا ہے جس سے اس کی قرابت حاصل ہو۔ (طرح التثریب:۸؍۲۲۵)
تخریج :
بخاري، کتاب التوحید، باب قول الله تعالیٰ ﴿ویحذرکم الله نفسه﴾ رقم: ۷۴۰۵۔ مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب الحث علی ذکر الله تعالی، رقم: ۲۶۷۵۔ مسند احمد: ۲؍ ۴۳۵۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۳۷۶۔
(۱).... مذکورہ حدیث سے ذکر الٰہی کرنے والوں کی فضیلت واضح ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ ذوالجلال یاد کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ﴾ (البقرة: ۱۵۲).... ’’تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا۔‘‘
جماعت میں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ، نماز کے بعد مسنون اذکار یا پھر ایک وعظ ونصیحت کر رہا ہے اور دوسرے سن رہے ہیں ، نہ کہ مروجہ مجالس ذکر جو آج کل بعض لوگوں نے رائج کر رکھی ہیں اور حلقہ بنا کر لوگوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ سبحان الله اتنی دفعہ پڑھو اور فلاں کلمہ اتنی دفعہ پڑھو، یہ درست نہیں ہے۔
جیسا کہ ایک روایت میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں گئے، دیکھا ایک آدمی (سربراہ) ہے اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں ۔ (ہر حلقے میں موجود لوگوں کو کہتا ہے) سو دفعہ لا اله الا الله کہو، تو وہ سو دفعہ لا اله الا الله کہتے ہیں اور وہ کہتا ہے: سو دفعہ سبحان اللہ کہو تو وہ سو دفعہ سبحان اللہ کہتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ جو میں تمہیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمن! یہ کنکریاں ہیں جن کے ساتھ ہم تکبیر، تہلیل اور تسبیح شمار کر رہے ہیں ۔ فرمایا: تو تم اپنی برائیاں شمار کرو۔ میں ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ (سنن دارمي، باب فی کراهیة اخذ الراي، رقم: ۲۰۴)
(۲).... قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عمل سب کا ایک (ہی) ہوتا ہے مگر قبولیت کی زیادتی مومن شخص کے خلوص نیت کے مطابق ہوتی ہے۔ نیز ((مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیْهِ شِبْرًا)) کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو شخص نیت کے اعتبار سے ایک بالشت میرے قریب ہوگا تو میں اسے ایک ہاتھ بڑھنے کی توفیق دوں گا۔ اور اگر عزم واجتہاد (کوشش) کے ذریعہ وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں اسے ہدایت ورعایت کے ذریعہ دو ہاتھ اپنے قریب کر لوں گا۔ اور اگر وہ سب سے اعراض کر کے میری طرف آتا ہے تو میں اس کے راہ حق کی ہر رکاوٹ کو دور کر دوں گا، یہ رب کا اپنے بندے کی طرف دوڑ کر آنے کا معنی ہے۔ جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے: ((وَمَنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُهٗ هَرْوَلَةً)) (مسلم، کتاب الدعوات والاذکار، رقم:۶۸۳۳).... ’’جب میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔‘‘ اس حدیث کے آخری الفاظ کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ایسے عمل کرنے کی توفیق بخشتا ہے جس سے اس کی قرابت حاصل ہو۔ (طرح التثریب:۸؍۲۲۵)