كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ أَبْغَضَ لِقَاءَ اللَّهِ أَبْغَضَ اللَّهُ لِقَاءَهُ)) ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا: لَئِنْ كَانَ مَا يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا لَقَدْ هَلَكْنَا، فَقَالَتْ: إِنَّ الْهَالِكَ لَمَنْ يَهْلِكُ فِي قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: وَمَا ذَاكَ؟ قُلْتُ: يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَمَنْ أَبْغَضَ لِقَاءَ اللَّهِ أَبْغَضَ اللَّهُ لِقَاءَهُ)) ، فَقَالَتْ: وَأَنَا قَدْ سَمِعْتُهُ، هَلْ تَدْرِي مَتَى يَكُونَ ذَاكَ؟ ذَاكَ إِذَا طَمَحَ الْبَصَرُ وَحُشْرِجَتِ الصَّدُورُ وَانْشَجَبَتِ الْأَصَابِعُ وَاقْشَعَرَّ الْجِلْدُ، فَحِينَئِذٍ، مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ أَبْغَضَ لِقَاءَ اللَّهِ أَبْغَضَ اللَّهُ لِقَاءَهُ.
دُعاؤں کےفضائل و مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے، جو اللہ سے ملاقات کرنا ناپسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملاقات کرنا ناپسند کرتا ہے۔‘‘ راوی نے بیان کیا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو بیان کرتے ہیں اگر تو وہ حق ہے تو پھر ہم ہلاک ہوگئے، انہوں نے فرمایا: ہلاک ہونے والا تو وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں ہلاک ہوتا ہے، پس انہوں نے فرمایا: وہ کیا بیان کرتے ہیں ؟ میں نے کہا: وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملاقات کرنا پسند فرماتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کرنا ناپسند کرتا ہے تو اللہ اس سے ملاقات کرنا ناپسند کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے فرمایا: میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کب ہوگا؟ یہ تب ہوگا جب نزع کے وقت نگاہ اٹھ جائے گی، جب سینوں میں سانس گھٹ؍ رک جائے گی، انگلیاں زخمی ہوجائیں گی اور رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، پس اس وقت جو اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرے گا تو اللہ اس سے ملاقات کرنا پسند کرے گا، اور جو اس سے ملاقات کرنا ناپسند کرے گا تو اللہ اس سے ملاقات کرنا ناپسند کرے گا۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا موت کے وقت اللہ ذوالجلال کی ملاقات کا شوق ہونا چاہیے اور دنیا کو چھوڑنے کا غم نہ ہو۔ اور اسی طرح ہر وقت ان لوگوں کو اللہ ذوالجلال کی عبادت میں مشغول رہنا چاہیے جو اللہ ذوالجلال کی ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں اور اللہ ذوالجلال کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہیں کرتے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا﴾ (الکهف: ۱۱۰) .... ’’جو شخص اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے۔‘‘ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! موت کو ناپسند کرنے میں اللہ کی ملاقات سے ناپسندیدگی کا اظہار ہے اور ہم سب (طبعی طور پر) موت کو ناپسند کرتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ بات نہیں ، اس سے موت کے وقت کی کیفیت مراد ہے جب (بندے کو) اللہ کی رحمت اور مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے وہ اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے، تب اللہ بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اور جب اللہ کے عذاب کی بشارت دی جائے تو وہ اللہ سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرتا (مرنے سے گھبراتا ہے) اللہ ذوالجلال بھی اس سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرتا۔‘‘ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، رقم: ۲۶۸۴)
کیونکہ مومن کو موت کے وقت جنت کی خوشخبری اور کافر کو اللہ کے عذاب کی وعید سنا دی جاتی ہے۔ جس سے مومن کا شوق اللہ ذوالجلال کی ملاقات کا ہوتا ہے اور کافر کو ہلاکت نظر آرہی ہوتی ہے جس سے اس کے دل کی حسرت ہوتی ہے کہ کاش مجھے موت نہ آئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سے ملاقات کا کتنا شوق تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو چنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے آخری الفاظ یہ ادا ہوئے: اللهم بالرفیق الأعلی۔
تخریج :
مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب من احب لقاء الله الخ، رقم: ۲۶۸۵۔ سنن ترمذي ، رقم: ۱۰۶۷۔ سنن نسائي ، رقم: ۱۸۳۴۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۴۶۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۳۰۱۰۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا موت کے وقت اللہ ذوالجلال کی ملاقات کا شوق ہونا چاہیے اور دنیا کو چھوڑنے کا غم نہ ہو۔ اور اسی طرح ہر وقت ان لوگوں کو اللہ ذوالجلال کی عبادت میں مشغول رہنا چاہیے جو اللہ ذوالجلال کی ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں اور اللہ ذوالجلال کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہیں کرتے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا﴾ (الکهف: ۱۱۰) .... ’’جو شخص اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے۔‘‘ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! موت کو ناپسند کرنے میں اللہ کی ملاقات سے ناپسندیدگی کا اظہار ہے اور ہم سب (طبعی طور پر) موت کو ناپسند کرتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ بات نہیں ، اس سے موت کے وقت کی کیفیت مراد ہے جب (بندے کو) اللہ کی رحمت اور مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے وہ اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے، تب اللہ بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اور جب اللہ کے عذاب کی بشارت دی جائے تو وہ اللہ سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرتا (مرنے سے گھبراتا ہے) اللہ ذوالجلال بھی اس سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرتا۔‘‘ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، رقم: ۲۶۸۴)
کیونکہ مومن کو موت کے وقت جنت کی خوشخبری اور کافر کو اللہ کے عذاب کی وعید سنا دی جاتی ہے۔ جس سے مومن کا شوق اللہ ذوالجلال کی ملاقات کا ہوتا ہے اور کافر کو ہلاکت نظر آرہی ہوتی ہے جس سے اس کے دل کی حسرت ہوتی ہے کہ کاش مجھے موت نہ آئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سے ملاقات کا کتنا شوق تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو چنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے آخری الفاظ یہ ادا ہوئے: اللهم بالرفیق الأعلی۔