كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاؤُوْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَلِّمُوْا وَیَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، عَلِّمُوْا وَیَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، عَلِّمُوْا وَیَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، ثُمَّ قَالَ: وَاِذَا غَضِبْتَ فَاسْکُتْ، وَاِذَا غَضِبْتَ فَاسْکُتْ، وَاِذَا غَضِبْتَ فَاسْکُتْ
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تعلیم دو، آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو، سکھاؤ، آسانی پیدا کرو، تنگی پیدا نہ کرو، تعلیم دو، آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہوجاؤ، جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہو جاؤ اور جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہو جاؤ۔‘‘
تشریح :
(۱) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا لوگوں کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے، سختی سے بچنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ لوگ دینی کاموں کو سختی کی وجہ سے چھوڑ دیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: ’’یَسِّرُوْا‘‘ میں آسانی کا حکم دیا گیا ہے۔ مرادی معنی یہ ہے کہ کبھی سکون کا لحاظ رکھا جائے اور کبھی آسانی کا۔ مشقت طلب امور کا حکم نہ دیا جائے، تاکہ عمل کرنے والا اکتا نہ جائے۔ مجبور لوگوں پر ان کو دی گئی رخصتوں کی وضاحت کردی جائے، مثلاً: بیٹھ کر نماز پڑھنا، مسافر اور مریض کا روزہ نہ رکھنا۔ اسی طرح ’’اَخَفُّ الضَّرَرَیْنِ‘‘ اور ’’اَخَفُّ الْمُفْسِدِیْنِ ‘‘کے قانون کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بدو کے پیشاب کرنے کے موقع پر کیا تھا۔ ( فتح الباري: ۱۰؍ ۶۴۴)
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں مختلف روایات جمع کرکے کہا: ان احادیث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم، اجر وثواب اور اس کی وسعت رحمت کا ذکر کرکے لوگوں کو خوشخبریاں سنائی جائیں اور محض تخویف ووعید کا ذکر کرکے سامعین کو متنفر نہ کیا جائے۔ (شرح مسلم للنووي: ۲؍ ۸۳)
(۲).... معلوم ہوا غصے کے وقت خاموشی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ غصہ آنے کے بعد اگر خاموشی اختیار کی جائے تو تھوڑی دیر کے بعد نفس کی بھڑاس ختم ہوجاتی ہے۔ اور جس پر غصہ آیا تھا اس سے مواخذہ کرنے کا جذبہ ختم ہوجائے گا اور یہ معافی کی ایک صورت ہے۔
تخریج :
انظر ماقبله۔
(۱) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا لوگوں کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے، سختی سے بچنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ لوگ دینی کاموں کو سختی کی وجہ سے چھوڑ دیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: ’’یَسِّرُوْا‘‘ میں آسانی کا حکم دیا گیا ہے۔ مرادی معنی یہ ہے کہ کبھی سکون کا لحاظ رکھا جائے اور کبھی آسانی کا۔ مشقت طلب امور کا حکم نہ دیا جائے، تاکہ عمل کرنے والا اکتا نہ جائے۔ مجبور لوگوں پر ان کو دی گئی رخصتوں کی وضاحت کردی جائے، مثلاً: بیٹھ کر نماز پڑھنا، مسافر اور مریض کا روزہ نہ رکھنا۔ اسی طرح ’’اَخَفُّ الضَّرَرَیْنِ‘‘ اور ’’اَخَفُّ الْمُفْسِدِیْنِ ‘‘کے قانون کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بدو کے پیشاب کرنے کے موقع پر کیا تھا۔ ( فتح الباري: ۱۰؍ ۶۴۴)
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں مختلف روایات جمع کرکے کہا: ان احادیث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم، اجر وثواب اور اس کی وسعت رحمت کا ذکر کرکے لوگوں کو خوشخبریاں سنائی جائیں اور محض تخویف ووعید کا ذکر کرکے سامعین کو متنفر نہ کیا جائے۔ (شرح مسلم للنووي: ۲؍ ۸۳)
(۲).... معلوم ہوا غصے کے وقت خاموشی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ غصہ آنے کے بعد اگر خاموشی اختیار کی جائے تو تھوڑی دیر کے بعد نفس کی بھڑاس ختم ہوجاتی ہے۔ اور جس پر غصہ آیا تھا اس سے مواخذہ کرنے کا جذبہ ختم ہوجائے گا اور یہ معافی کی ایک صورت ہے۔