مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 811

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ، كَانَ رُبَّمَا بَعَثَ إِلَى أُمِّ الدَّرْدَاءِ، فَتَكُونُ عِنْدَهُ، قَالَتْ: فَدَعَا خَادِمًا لَهُ، فَأَبْطَأَ، فَلَعَنَهُ، فَقَالَتْ أُمُّ الدَّرْدَاءِ: لَا تَلْعَنْهُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((اللَّعَّانُونَ لَا يَكُونُونَ شُفَعَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 811

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب زید بن اسلم سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان نے سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا تاکہ وہ اس کے ہاں ہوں ، پس اس نے اپنے خادم کو بلایا، تو اس نے (آنے میں ) تاخیر کی، اس نے اس پر لعنت کی، تو سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس پر لعنت نہ کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہت زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن اللہ کے ہاں سفارش کر سکیں گے نہ گواہی دے سکیں گے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا لعنت کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ اور اس کی وجہ سے انسان بہت بڑی خیر سے محروم ہوجائے گا کہ امت محمدیہ کو اللہ ذوالجلال نے یہ اعزاز دیا ہے کہ یہ دوسری امتوں کی گواہی دے گی اور آپس میں ایک دوسرے کی شفاعت کرے گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ کَذٰلِكَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَهِیْدًا﴾ (البقرۃ:۱۴۳) .... ’’اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت بنایا ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول تم پر گواہ بن جائیں ۔‘‘ لیکن یہ اعزاز لعنت کرنے والے لوگوں کو نہیں ملے گا۔ ایک حدیث میں ہے: ((لَیْس الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ۔)) (سنن ترمذي ، رقم: ۱۹۷۷۔ سلسلة الصحیحة ، رقم: ۳۲۰) .... ’’مومن بہت طعنے دینے والا بہت لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘ حدیث کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بہت زیاد لعنت کرنے والا کافر ہے۔ دراصل کفار پر تعریض اور چوٹ ہے کہ مومن نہیں ، بلکہ کافر لعن و طعن کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کفار، ظالمین اور کبائر کا ارتکاب کرنے والوں پر لعنت کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ:۸۹) .... ’’پس اللہ کی لعنت ہو کفر کرنے والوں پر۔‘‘ ﴿اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ (ہود:۱۸) .... ’’خبردار اللہ کی لعنت ہو ظلم کرنے والوں پر۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَعَنَ اللّٰهُ الْخَمْرَ وَشَارَبَهَا وَسَاقِیْهَا۔)) .... ’’پس اللہ کی لعنت ہو شراب پر اور شراب پینے اور پلانے والے پر۔‘‘ اور صحیح بخاری میں ہے: ((لَعَنَ اللّٰهُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَةَ فَتُقْطَعُ یَدَہٗ وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدَهٗ۔)) .... ’’پس اللہ کی لعنت ہو چوری کرنے والے پر، وہ انڈہ چوری کرتا ہے اُس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور ایسے ہی رَسّی چوری کرتا ہے تو اُس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاري، رقم:۶۷۸۳) معلوم ہوا جس وصفِ بد پر لعنت کا حکم ہوا ہے اُس پر لعنت جائز ہے، لیکن کسی غیر مستحق شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔
تخریج : مسلم، کتاب البروالصلة ، باب النهي عن لعن الدواب وغیرها، رقم: ۲۵۹۷۔ سنن ابي داود، کتاب الادب، باب في اللاعن، رقم: ۴۹۰۷۔ سنن کبری بیهقي: ۱۰؍ ۱۹۳۔ ادب المفرد، رقم: ۳۱۷۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا لعنت کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ اور اس کی وجہ سے انسان بہت بڑی خیر سے محروم ہوجائے گا کہ امت محمدیہ کو اللہ ذوالجلال نے یہ اعزاز دیا ہے کہ یہ دوسری امتوں کی گواہی دے گی اور آپس میں ایک دوسرے کی شفاعت کرے گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ کَذٰلِكَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَهِیْدًا﴾ (البقرۃ:۱۴۳) .... ’’اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت بنایا ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول تم پر گواہ بن جائیں ۔‘‘ لیکن یہ اعزاز لعنت کرنے والے لوگوں کو نہیں ملے گا۔ ایک حدیث میں ہے: ((لَیْس الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ۔)) (سنن ترمذي ، رقم: ۱۹۷۷۔ سلسلة الصحیحة ، رقم: ۳۲۰) .... ’’مومن بہت طعنے دینے والا بہت لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘ حدیث کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بہت زیاد لعنت کرنے والا کافر ہے۔ دراصل کفار پر تعریض اور چوٹ ہے کہ مومن نہیں ، بلکہ کافر لعن و طعن کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کفار، ظالمین اور کبائر کا ارتکاب کرنے والوں پر لعنت کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ:۸۹) .... ’’پس اللہ کی لعنت ہو کفر کرنے والوں پر۔‘‘ ﴿اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ (ہود:۱۸) .... ’’خبردار اللہ کی لعنت ہو ظلم کرنے والوں پر۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَعَنَ اللّٰهُ الْخَمْرَ وَشَارَبَهَا وَسَاقِیْهَا۔)) .... ’’پس اللہ کی لعنت ہو شراب پر اور شراب پینے اور پلانے والے پر۔‘‘ اور صحیح بخاری میں ہے: ((لَعَنَ اللّٰهُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَةَ فَتُقْطَعُ یَدَہٗ وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدَهٗ۔)) .... ’’پس اللہ کی لعنت ہو چوری کرنے والے پر، وہ انڈہ چوری کرتا ہے اُس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور ایسے ہی رَسّی چوری کرتا ہے تو اُس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاري، رقم:۶۷۸۳) معلوم ہوا جس وصفِ بد پر لعنت کا حکم ہوا ہے اُس پر لعنت جائز ہے، لیکن کسی غیر مستحق شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔