مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 81

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، وَمَطَرٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأرْبَعِ، ثُمَّ جَهَدَهَا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ، زَادَ مَطَرٌ فِيهِ: وَإِنْ لَمْ يُنْزِلْ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 81

طہارت اور پاکیزگی کے احکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ نے فرمایا: ’’جب وہ اس (اہلیہ) کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے، پھر کوشش (جماع) کرے، تو اس پر غسل لازم ہو جاتا ہے۔‘‘ مطر (راوی) نے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ’’خواہ انزال نہ ہوگا۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جب شرمگاہیں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے اگرچہ منی خارج نہ بھی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: ((اَلْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ۔)) ’’پانی پانی سے ہے۔‘‘ (مسلم، رقم : ۳۴۳) مطلب یہ کہ منی خارج ہوگی تب غسل واجب ہوگا۔ بظاہر مذکورہ بالا دونوں احادیث متعارض ہیں، علماء نے ان میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ پہلی روایت ناسخ اور دوسری منسوخ یعنی دوسری حدیث والا حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ بعد میں منسوخ ہوگیا پھر بعد میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجرد دخول سے ہی غسل واجب ہو جائے گا‘‘ جیسا کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ بلا شبہ وہ فتویٰ جسے لوگ بیان کرتے تھے۔ پانی کا استعمال پانی (یعنی منی) کے خروج سے ہے، ایسی رخصت تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں عنایت فرمایا تھا۔ لیکن پھر اس کے بعد آپ نے ہمیں (مجرد دخول سے ہی) غسل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۱۵۔ صحیح ابن ماجہ، رقم : ۴۹۳) خلفائے اربعہ جمہور و صحابہ، تابعین رحمہم اللہ اجمعین اور فقہائے امت اسی کے قائل ہیں کہ انزال ضروری نہیں بلکہ مجرد شرمگاہوں کے ملنے سے ہی غسل واجب ہو جاتا ہے۔ ( فتح الباري: ۱؍ ۳۹۷۔ نصب الرایه: ۱؍ ۸۲)
تخریج : بخاري، کتاب الغسل ....، باب اذا التقی الختانان، رقم: ۲۹۱۔ مسلم، کتاب الحیض، باب نسخ الماء من الماء، رقم: ۳۴۸۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۹۳۔ سنن دارمي، رقم: ۷۶۱۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جب شرمگاہیں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے اگرچہ منی خارج نہ بھی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: ((اَلْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ۔)) ’’پانی پانی سے ہے۔‘‘ (مسلم، رقم : ۳۴۳) مطلب یہ کہ منی خارج ہوگی تب غسل واجب ہوگا۔ بظاہر مذکورہ بالا دونوں احادیث متعارض ہیں، علماء نے ان میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ پہلی روایت ناسخ اور دوسری منسوخ یعنی دوسری حدیث والا حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ بعد میں منسوخ ہوگیا پھر بعد میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجرد دخول سے ہی غسل واجب ہو جائے گا‘‘ جیسا کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ بلا شبہ وہ فتویٰ جسے لوگ بیان کرتے تھے۔ پانی کا استعمال پانی (یعنی منی) کے خروج سے ہے، ایسی رخصت تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں عنایت فرمایا تھا۔ لیکن پھر اس کے بعد آپ نے ہمیں (مجرد دخول سے ہی) غسل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۱۵۔ صحیح ابن ماجہ، رقم : ۴۹۳) خلفائے اربعہ جمہور و صحابہ، تابعین رحمہم اللہ اجمعین اور فقہائے امت اسی کے قائل ہیں کہ انزال ضروری نہیں بلکہ مجرد شرمگاہوں کے ملنے سے ہی غسل واجب ہو جاتا ہے۔ ( فتح الباري: ۱؍ ۳۹۷۔ نصب الرایه: ۱؍ ۸۲)