كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، نا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَصْلُحُ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثَةٍ: الرَّجُلُ يَكْذِبُ امْرَأَتَهُ لِتَرْضَى عَنْهُ، وَالرَّجُلُ يَكْذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ، وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ "
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
باب
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ‘‘صرف تین امور میں جھوٹ بولنا درست ہے: آدمی اپنی اہلیہ سے جھوٹ بولتا ہے تاکہ وہ اس سے خوش ہو جائے، آدمی لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اور لڑائی میں جھوٹ بولتا ہے۔‘‘
تشریح :
شریعت نے جھوٹ بولنے کو حرام قرار دیا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کہا ہے اور ایسے لوگوں پر اللہ ذوالجلال کی لعنت برستی ہے، لیکن چند مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ تین مواقع پر جھوٹ بولنا جائز ہے:
۱- میاں بیوی کا جھوٹ: .... میاں بیوی کا رشتہ عظیم ترین رشتہ ہے۔ دونوں میں محبت برقرار رہے تو زندگی کا مزہ ہوتا ہے۔ اگر ناچاقی ہوجائے تو گھر ویران ہوجاتے ہیں ۔ اس مقدس رشتے کو بحال اور قائم ودائم رکھنے کے لیے اسلام نے بے شمار احکام وضع کیے ہیں اور ہر قسم کی ناچاقی سے دور رہنے کے لیے جھوٹ بولنے تک کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن زوجین کے درمیان جواز جھوٹ سے مراد دھوکا دہی نہیں ۔ جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ شوہر کا بیوی کے لیے اور بیوی کا اس کے لیے جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے باہمی محبت و پیار کے لیے ایسا کریں ، البتہ اپنے ذمہ واجبات کی ادائیگی میں مکر وفریب کرنے یا ناجائز حق کے حصول کی خاطر ایسا کرنے کی حرمت پر اہل اسلام کا اجماع ہے۔ (شرح مسلم للنووي: ۶؍ ۱۵۸)
شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جائز جھوٹ میں سے یہ نہیں کہ اس (بیوی) کے ساتھ کسی ایسی چیز کا وعدہ کرے جس کو پورا کرنے کا اس کا ارادہ ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ مراد ہے کہ اس کو خوش کرنے کی خاطر یہ کہے کہ میں نے فلاں چیز تمہارے لیے اس قیمت سے خریدی ہے جو کہ اصل قیمت سے زیادہ ہو۔ کیونکہ اگر کبھی اصل صورت حال کا انکشاف ہوجائے تو پھر یہی بات شوہر کے بارے میں بدگمانی کا سبب بن جاتی ہے اور یہ بات خرابی کی ہے، اصلاح کی نہیں ۔( سلسلة الصحیحة ، رقم : ۴۹۸)
علامہ ابن الملک کا کہنا ہے میاں بیوی کے درمیان بولے جانے والے جھوٹ کے متعلق یہ ہے کہ آپس میں کہے مجھے آپ سے زیادہ کوئی عزیز نہیں (تو یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔) (مرقاة المفاتیح: ۸؍ ۷۶۶)
۲- صلح کے لیے جھوٹ: .... مسلمانوں میں افتراق وانتشار اسلام نے کبھی برداشت نہیں کیا اور صلح کرانے کی اللہ تعالیٰ نے خود ترغیب دی اور یہاں تک اجازت دے دی کہ اگر صلح کے لیے جھوٹ بولنا پڑے تو اس کی بھی اجازت ہے لیکن صلح کرانا ضروری ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : دو (آدمیوں ) کے درمیان صلح کرواتے وقت جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے تک خیر کی بات پہنچائے، عمدہ خبر سنائے، اگرچہ اس نے وہ خبر سنی نہ ہو اور اس سے مقصود اصلاح ہو۔
۳- جنگ میں جھوٹ: .... اللہ ذوالجلال نے اس دین متین کی حفاظت کے لیے قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیا، کیونکہ ((اَلْاِسْلَامُ یَعْلُو وَلَا یُعْلٰی عَلَیْهِ)) اور جنگ میں رازداری کی بڑی اہمیت ہے اور جب تک راز کو راز نہ رکھا جائے راز نہیں رہتا۔ اس ضرورت کے پیش نظر اور دشمن کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ بولنے کی بھی اجازت دی ہے۔ کیونکہ ((اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ)).... ’’جنگ دھوکا کا نام ہے۔‘‘ اور دھوکا جھوٹ یا شبہ جھوٹ کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔
علامہ ابن الملک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جنگ میں جھوٹ یہ ہے کہ مثال کے طور پر کہے: لشکر اسلام کثیر تعداد میں ہے۔ انہیں بہت مدد پہنچ چکی ہے۔ یا یہ کہے: پیچھے دیکھ کہ فلاں شخص تجھے پیچھے سے مارنے کے لیے آچکا ہے۔ (مرقاة المفاتیح: ۸؍ ۷۶۶)
۴- جان ومال کے خوف سے جھوٹ بولنا: .... علماء اس کی بھی اجازت دیتے ہیں ۔ استدلال اس آیت مبارکہ سے کرتے ہیں : ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ﴾ (النحل:۱۰۶) .... ’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔‘‘
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے: اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی شخص کے ہاں ایک آدمی چھپا ہو اور کوئی ظالم اس کو (ناحق) قتل کرنا چاہے تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اس کے بارے میں جھوٹ بولتے ہوئے لا علمی ظاہر کرے۔ (شرح مسلم للنووي)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر اس پر قسم بھی کھائے تو اس کو گناہ نہ ہوگا۔ ( فتح الباري : ۵؍۳۰۰)
تخریج :
مسلم، کتاب البروالصلة ، باب تحریم الکذب وبیان المباح منه ، رقم: ۲۶۰۵۔ سنن ابي داود، رقم: ۴۹۲۱۔ سنن ترمذي ، رقم: ۱۹۳۹۔
شریعت نے جھوٹ بولنے کو حرام قرار دیا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کہا ہے اور ایسے لوگوں پر اللہ ذوالجلال کی لعنت برستی ہے، لیکن چند مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ تین مواقع پر جھوٹ بولنا جائز ہے:
۱- میاں بیوی کا جھوٹ: .... میاں بیوی کا رشتہ عظیم ترین رشتہ ہے۔ دونوں میں محبت برقرار رہے تو زندگی کا مزہ ہوتا ہے۔ اگر ناچاقی ہوجائے تو گھر ویران ہوجاتے ہیں ۔ اس مقدس رشتے کو بحال اور قائم ودائم رکھنے کے لیے اسلام نے بے شمار احکام وضع کیے ہیں اور ہر قسم کی ناچاقی سے دور رہنے کے لیے جھوٹ بولنے تک کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن زوجین کے درمیان جواز جھوٹ سے مراد دھوکا دہی نہیں ۔ جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ شوہر کا بیوی کے لیے اور بیوی کا اس کے لیے جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے باہمی محبت و پیار کے لیے ایسا کریں ، البتہ اپنے ذمہ واجبات کی ادائیگی میں مکر وفریب کرنے یا ناجائز حق کے حصول کی خاطر ایسا کرنے کی حرمت پر اہل اسلام کا اجماع ہے۔ (شرح مسلم للنووي: ۶؍ ۱۵۸)
شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جائز جھوٹ میں سے یہ نہیں کہ اس (بیوی) کے ساتھ کسی ایسی چیز کا وعدہ کرے جس کو پورا کرنے کا اس کا ارادہ ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ مراد ہے کہ اس کو خوش کرنے کی خاطر یہ کہے کہ میں نے فلاں چیز تمہارے لیے اس قیمت سے خریدی ہے جو کہ اصل قیمت سے زیادہ ہو۔ کیونکہ اگر کبھی اصل صورت حال کا انکشاف ہوجائے تو پھر یہی بات شوہر کے بارے میں بدگمانی کا سبب بن جاتی ہے اور یہ بات خرابی کی ہے، اصلاح کی نہیں ۔( سلسلة الصحیحة ، رقم : ۴۹۸)
علامہ ابن الملک کا کہنا ہے میاں بیوی کے درمیان بولے جانے والے جھوٹ کے متعلق یہ ہے کہ آپس میں کہے مجھے آپ سے زیادہ کوئی عزیز نہیں (تو یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔) (مرقاة المفاتیح: ۸؍ ۷۶۶)
۲- صلح کے لیے جھوٹ: .... مسلمانوں میں افتراق وانتشار اسلام نے کبھی برداشت نہیں کیا اور صلح کرانے کی اللہ تعالیٰ نے خود ترغیب دی اور یہاں تک اجازت دے دی کہ اگر صلح کے لیے جھوٹ بولنا پڑے تو اس کی بھی اجازت ہے لیکن صلح کرانا ضروری ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : دو (آدمیوں ) کے درمیان صلح کرواتے وقت جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے تک خیر کی بات پہنچائے، عمدہ خبر سنائے، اگرچہ اس نے وہ خبر سنی نہ ہو اور اس سے مقصود اصلاح ہو۔
۳- جنگ میں جھوٹ: .... اللہ ذوالجلال نے اس دین متین کی حفاظت کے لیے قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیا، کیونکہ ((اَلْاِسْلَامُ یَعْلُو وَلَا یُعْلٰی عَلَیْهِ)) اور جنگ میں رازداری کی بڑی اہمیت ہے اور جب تک راز کو راز نہ رکھا جائے راز نہیں رہتا۔ اس ضرورت کے پیش نظر اور دشمن کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ بولنے کی بھی اجازت دی ہے۔ کیونکہ ((اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ)).... ’’جنگ دھوکا کا نام ہے۔‘‘ اور دھوکا جھوٹ یا شبہ جھوٹ کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔
علامہ ابن الملک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جنگ میں جھوٹ یہ ہے کہ مثال کے طور پر کہے: لشکر اسلام کثیر تعداد میں ہے۔ انہیں بہت مدد پہنچ چکی ہے۔ یا یہ کہے: پیچھے دیکھ کہ فلاں شخص تجھے پیچھے سے مارنے کے لیے آچکا ہے۔ (مرقاة المفاتیح: ۸؍ ۷۶۶)
۴- جان ومال کے خوف سے جھوٹ بولنا: .... علماء اس کی بھی اجازت دیتے ہیں ۔ استدلال اس آیت مبارکہ سے کرتے ہیں : ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ﴾ (النحل:۱۰۶) .... ’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔‘‘
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے: اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی شخص کے ہاں ایک آدمی چھپا ہو اور کوئی ظالم اس کو (ناحق) قتل کرنا چاہے تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اس کے بارے میں جھوٹ بولتے ہوئے لا علمی ظاہر کرے۔ (شرح مسلم للنووي)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر اس پر قسم بھی کھائے تو اس کو گناہ نہ ہوگا۔ ( فتح الباري : ۵؍۳۰۰)