مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 795

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّ زِيَادًا أَخْبَرَهُ أَنَّ ثَابِتًا مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ وَالَأَقَلُّ عَلَى الْأَكْثَرِ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 795

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوار شخص پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم افراد زیادہ افراد کو سلام کریں گے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث میں سلام کے آداب بتائے گئے ہیں ، سلام میں ابتداء کی مذکورہ ترتیب میں جو حکمتیں ہیں ، اہل علم نے اپنی اپنی دانست کے مطابق وہ بیان فرمائی ہیں ، اصل حکمت اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور اسی کا علم کامل ہے۔ (۱).... سوار پیدل چلنے والے کو: اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ تواضع اختیار کرے، اگر پیدل کو حکم ہوتا کہ وہ سوار کو پہلے سلام کہے تو خطرہ تھا کہ سوار کے دل میں تکبر پیدا نہ ہو جائے۔ (۲).... چلنے والا بیٹھے ہوئے کو: اس لیے کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہرگززنے والے کی طرف بار بار از خود متوجہ ہو کر سلام کہنا مشکل ہے۔ جب کہ گزرنے والے کو ایسی کوئی مشکل نہیں ۔ (۳).... کم زیادہ کو: اس لیے کہ کثیر لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے، اور اس لیے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے شخص کو پہلے سلام کہیں تاکہ میں خود بینی اور کبر نہ پیدا ہو جائے۔ صحیح بخاری میں ہے ((یُسَلِّمُ الصَّغِیْرُ عَلَی الْکَبِیْرِ) (بخاري، رقم : ۶۲۳۴) ’’چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ ‘‘ (۴).... چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ بڑے کا حق چھوٹے پر زیادہ ہے، کیونکہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی توقیر کرے اور اس کے ساتھ باادب رہے۔ لیکن جس شخص کو سلام کہنے کا حکم ہے وہ سلام نہیں کہتا تو دوسرے کو سلام کہہ دینا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیلانے کی بہت تاکید کی ہے۔ اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے بچوں کو بھی سلام کہتے۔
تخریج : بخاري، کتاب الاستئذان، باب تسلیم الراکب علی الماشي، رقم: ۶۲۳۲۔ مسلم، کتاب السلام، باب یسلم الراکب علی الماشی الخ، رقم: ۲۱۶۰۔ سنن ابي داود، رقم: ۵۱۹۹۔ سنن ترمذي ، رقم: ۲۷۰۳۔ ادب المفرد رقم : ۹۹۳۔ مذکورہ حدیث میں سلام کے آداب بتائے گئے ہیں ، سلام میں ابتداء کی مذکورہ ترتیب میں جو حکمتیں ہیں ، اہل علم نے اپنی اپنی دانست کے مطابق وہ بیان فرمائی ہیں ، اصل حکمت اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور اسی کا علم کامل ہے۔ (۱).... سوار پیدل چلنے والے کو: اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ تواضع اختیار کرے، اگر پیدل کو حکم ہوتا کہ وہ سوار کو پہلے سلام کہے تو خطرہ تھا کہ سوار کے دل میں تکبر پیدا نہ ہو جائے۔ (۲).... چلنے والا بیٹھے ہوئے کو: اس لیے کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہرگززنے والے کی طرف بار بار از خود متوجہ ہو کر سلام کہنا مشکل ہے۔ جب کہ گزرنے والے کو ایسی کوئی مشکل نہیں ۔ (۳).... کم زیادہ کو: اس لیے کہ کثیر لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے، اور اس لیے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے شخص کو پہلے سلام کہیں تاکہ میں خود بینی اور کبر نہ پیدا ہو جائے۔ صحیح بخاری میں ہے ((یُسَلِّمُ الصَّغِیْرُ عَلَی الْکَبِیْرِ) (بخاري، رقم : ۶۲۳۴) ’’چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ ‘‘ (۴).... چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ بڑے کا حق چھوٹے پر زیادہ ہے، کیونکہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی توقیر کرے اور اس کے ساتھ باادب رہے۔ لیکن جس شخص کو سلام کہنے کا حکم ہے وہ سلام نہیں کہتا تو دوسرے کو سلام کہہ دینا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیلانے کی بہت تاکید کی ہے۔ اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے بچوں کو بھی سلام کہتے۔