مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 790

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا وَلَا يَبْغِي بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 790

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب اسی (سابقہ ۴۰۳) اسناد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو، تم ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔‘‘
تشریح : (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عاجزی وانکساری اختیار کرنی چاہیے، آپس میں رحمدلی، محبت اور الفت سے پیش آنا چاہیے۔ اگر اللہ ذوالجلال نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے تو اس کو اللہ ذوالجلال کا شکر ادا کرنا چاہیے، نہ کہ اس کی وجہ سے تکبر غرور کرتے ہوئے لوگوں کو حقیر جانے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ذوالجلال نے سب سے زیادہ عظمت عطا فرمائی، لیکن اس کے باوجود اللہ ذوالجلال نے فرمایا: ﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الشعراء:۲۱۵) .... ’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے پیروکار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔‘‘ (۲).... مذکورہ بالاحدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے پر زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلٰی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُوْلٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (الشوریٰ: ۴۲).... ’’بے شک ملامت کے لائق وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ اگر کوئی آدمی کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس سے بدلہ لینا جائز ہے، بشرطیکہ مظلوم ظالم پر زیادتی نہ کرے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَاُوْلٰٓئِكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾ (الشوریٰ: ۴۱).... ’’جو شخص ظلم کیے جانے کے بعد بدلہ لے لے، تو ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ۔‘‘
تخریج : مسلم، کتاب الجنة وصفة، باب الصفات التی یعرف بها الخ، رقم: ۲۸۶۵۔ سنن ابي داود، کتاب الادب، باب في التواضع، رقم: ۴۸۹۵۔ صحیح ترغیب و ترهیب، رقم: ۲۸۹۰۔ (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عاجزی وانکساری اختیار کرنی چاہیے، آپس میں رحمدلی، محبت اور الفت سے پیش آنا چاہیے۔ اگر اللہ ذوالجلال نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے تو اس کو اللہ ذوالجلال کا شکر ادا کرنا چاہیے، نہ کہ اس کی وجہ سے تکبر غرور کرتے ہوئے لوگوں کو حقیر جانے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ذوالجلال نے سب سے زیادہ عظمت عطا فرمائی، لیکن اس کے باوجود اللہ ذوالجلال نے فرمایا: ﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الشعراء:۲۱۵) .... ’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے پیروکار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔‘‘ (۲).... مذکورہ بالاحدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے پر زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلٰی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُوْلٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (الشوریٰ: ۴۲).... ’’بے شک ملامت کے لائق وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ اگر کوئی آدمی کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس سے بدلہ لینا جائز ہے، بشرطیکہ مظلوم ظالم پر زیادتی نہ کرے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَاُوْلٰٓئِكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾ (الشوریٰ: ۴۱).... ’’جو شخص ظلم کیے جانے کے بعد بدلہ لے لے، تو ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ۔‘‘