مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 781

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ هَكَذَا، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 781

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیواؤں اور مسکینوں کی سرپرستی کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا (جنت میں ) اس طرح ہوں گے۔‘‘ آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا معاشرے کے ضرورت مند، نادار بیوہ و یتیم اور معذور لوگوں کی کفالت اور خبر گیری کرنا بہت عظیم عمل ہے، اسلام نے اس کو جہاد فی سبیل اللہ جیسے عظیم عمل کے برابر کہا ہے، اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس مسلمانوں نے ان عظیم کاموں کو چھوڑ دیا اور عیسائیوں ، مرزائیوں نے نادار لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا یا اور آج انہیں اپنے اپنے دین میں داخل کر رہے ہیں ۔ (۱).... ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں : ’’بیواؤں اور مسکینوں (کی خدمت) کے لیے کمانے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہے اور اس شخص کی طرح ہے جو تمام دن روزے رکھے اور ساری رات نمازیں پڑھے۔‘‘ ( سلسلة الصحیحة ، رقم : ۲۸۸۱۔ ادب المفرد: ۱۳۱) (۲).... مذکورہ حدیث سے یتیم کی کفالت کرنے والے کی بھی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ جیسا کہ یہ دونوں انگلیاں قریب قریب ہیں ، ایسے ہی میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں قریب قریب ہوں گے۔ لیکن درجے میں فرق ہوگا جس کا اظہار خود انگلیوں کے چھوٹے اور بڑے ہونے سے ہو رہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباري میں لکھتے ہیں کہ اس میں دونوں درجوں کے فرق کی طرف اشارہ ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب الطلاق، باب اللعان، رقم: ۵۳۰۴۔ مسلم، کتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساکن الزین الخ، رقم: ۲۹۸۲۔ سنن ترمذي ، رقم: ۱۹۶۹۔ سنن نسائي ، رقم: ۲۵۷۷۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۲۱۴۰۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا معاشرے کے ضرورت مند، نادار بیوہ و یتیم اور معذور لوگوں کی کفالت اور خبر گیری کرنا بہت عظیم عمل ہے، اسلام نے اس کو جہاد فی سبیل اللہ جیسے عظیم عمل کے برابر کہا ہے، اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس مسلمانوں نے ان عظیم کاموں کو چھوڑ دیا اور عیسائیوں ، مرزائیوں نے نادار لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا یا اور آج انہیں اپنے اپنے دین میں داخل کر رہے ہیں ۔ (۱).... ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں : ’’بیواؤں اور مسکینوں (کی خدمت) کے لیے کمانے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہے اور اس شخص کی طرح ہے جو تمام دن روزے رکھے اور ساری رات نمازیں پڑھے۔‘‘ ( سلسلة الصحیحة ، رقم : ۲۸۸۱۔ ادب المفرد: ۱۳۱) (۲).... مذکورہ حدیث سے یتیم کی کفالت کرنے والے کی بھی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ جیسا کہ یہ دونوں انگلیاں قریب قریب ہیں ، ایسے ہی میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں قریب قریب ہوں گے۔ لیکن درجے میں فرق ہوگا جس کا اظہار خود انگلیوں کے چھوٹے اور بڑے ہونے سے ہو رہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباري میں لکھتے ہیں کہ اس میں دونوں درجوں کے فرق کی طرف اشارہ ہے۔