مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 778

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، نا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 778

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی اپنے خلیل (دوست) کے دین پر ہوتا ہے، پس تم میں سے کوئی دیکھے کہ وہ کس کو دوست بناتا ہے؟
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دوستی کا اثر انسان کی شخصیت پر ہوتا ہے، اگر دوست اچھا ہوگا تو اپنے دوست پر بھی اچھا اثر ڈالے گا اگر دوست برا ہوگا، تو اثر بھی برا ڈالے گا۔ آج کی جدید سائنس بھی مذکورہ بالا فرمان نبوی کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک ماہر معاشرت اور ماہر نفسیات نے دوستی کے اثر کو مندرجہ ذیل طریقے پر پیش کیا ہے کہ بڑوں کی دوستی آدمی کو بڑا بنا دیتی ہے جبکہ بروں کی دوستی آدمی کو برا بنا دیتی ہے، کیونکہ دوست اپنے دوست کی تقلید کرتا ہے جس نے نمازیوں سے دوستی کی وہ نمازی بن گیا اور جس نے بادشاہوں سے دوستی کی وہ بادشاہ بن گیا۔ لہٰذا دوستی لگاتے وقت دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ دیندار ہے یا نہیں ؟ کیونکہ اگر نیک ہوگا تو نیکوں کی صحبت اس کو نیک اور بروں کی صحبت برا بنا دے گی۔ جیسا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نیک ساتھی کی اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے کستوری اٹھانے والا اور آگ کی بھٹی دھونکنے والا۔ پس کستوری اٹھانے والا یا تو تجھے (کستوری) عطیہ دے دے گا یا تو خود اس سے خریدے گا۔ (یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تب بھی) یا یہ کہ تو اس سے پاکیزہ خوشبو پائے گا۔ اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا پھر تو اس سے بدبودار بو پائے گا۔ ‘‘(بخاري، کتاب الذبائح، رقم : ۵۵۳۴۔ مسلم، کتاب البروالصلة ، رقم : ۲۶۲۸) شاعر نے حدیث کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا: جہاں عطر کھینچتا ہے جاؤ وہاں گر تو آؤ گے ایک روز کپڑے بسا کر جہاں آگ جلتی ہے جاؤ وہاں گر تو آؤ گے ایک روز کپڑے جلا کر مانا کہ کپڑے بچاتے رہے تم مگر آگ کی سینک کھاتے رہے تم
تخریج : سنن ابوداوود، کتاب الادب، باب من یومر ان یجالس، رقم: ۴۸۳۳۔ سنن ترمذي ، کتاب الزهد، رقم: ۲۳۷۸۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۰۳۔ قال الشیخ الالبانی: اسناده حسن۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دوستی کا اثر انسان کی شخصیت پر ہوتا ہے، اگر دوست اچھا ہوگا تو اپنے دوست پر بھی اچھا اثر ڈالے گا اگر دوست برا ہوگا، تو اثر بھی برا ڈالے گا۔ آج کی جدید سائنس بھی مذکورہ بالا فرمان نبوی کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک ماہر معاشرت اور ماہر نفسیات نے دوستی کے اثر کو مندرجہ ذیل طریقے پر پیش کیا ہے کہ بڑوں کی دوستی آدمی کو بڑا بنا دیتی ہے جبکہ بروں کی دوستی آدمی کو برا بنا دیتی ہے، کیونکہ دوست اپنے دوست کی تقلید کرتا ہے جس نے نمازیوں سے دوستی کی وہ نمازی بن گیا اور جس نے بادشاہوں سے دوستی کی وہ بادشاہ بن گیا۔ لہٰذا دوستی لگاتے وقت دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ دیندار ہے یا نہیں ؟ کیونکہ اگر نیک ہوگا تو نیکوں کی صحبت اس کو نیک اور بروں کی صحبت برا بنا دے گی۔ جیسا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نیک ساتھی کی اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے کستوری اٹھانے والا اور آگ کی بھٹی دھونکنے والا۔ پس کستوری اٹھانے والا یا تو تجھے (کستوری) عطیہ دے دے گا یا تو خود اس سے خریدے گا۔ (یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تب بھی) یا یہ کہ تو اس سے پاکیزہ خوشبو پائے گا۔ اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا پھر تو اس سے بدبودار بو پائے گا۔ ‘‘(بخاري، کتاب الذبائح، رقم : ۵۵۳۴۔ مسلم، کتاب البروالصلة ، رقم : ۲۶۲۸) شاعر نے حدیث کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا: جہاں عطر کھینچتا ہے جاؤ وہاں گر تو آؤ گے ایک روز کپڑے بسا کر جہاں آگ جلتی ہے جاؤ وہاں گر تو آؤ گے ایک روز کپڑے جلا کر مانا کہ کپڑے بچاتے رہے تم مگر آگ کی سینک کھاتے رہے تم