مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 775

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُقْرِئُ، نا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُشَمِّتَهُ أَوْ يُسَمِّتَهُ إِذَا عَطِسَ، وَيُجِيبَهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَشْهَدَهُ إِذَا مَاتَ، وَيَنْصَحَ لَهُ إِذَا غَابَ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 775

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ جب وہ اس سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے، جب وہ چھینک مار کر الحمد للہ کہے تو یہ اسے ’’یرحمک اللہ‘‘ کہہ کر جواب دے، جب اسے دعوت دے تو وہ اسے قبول کرے، جب بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے، جب فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرے اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے لیے خیر خواہی کرے۔‘ ‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ایک مسلمان کو دوسرے کے حقوق ادا کرنے چاہئیں تاکہ معاشرے میں امن قائم رہ سکے، چند حقوق کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں ہوا ہے۔ (۱) ملاقات کے وقت سلام کرنا: لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جدا ہوتے وقت سلام نہیں کہنا، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو سلام کہے، اگر اس کا ارادہ بیٹھنے کا ہے تو بیٹھ جائے، پھر جب اٹھے تو سلام کہے کیونکہ پہلے سلام کا حق دوسرے سے زیادہ نہیں ۔‘‘ (صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۴۰۰) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ ملنے پر بھی سلام کہتے اور وہ اس حدیث پر عمل کرتے نظر آتے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو سلام کہے پھر اگر ان کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے تو دوبارہ ملنے پر پھر اسے سلام کہے۔ ‘‘ (سنن ابي داود، رقم : ۵۲۰۰) سلام سننے والے کو سلام کا جواب دینا چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ منه آ اَوْ رُدُّوْہَا﴾ (النسآء:۸۶).... ’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔‘‘ اچھا جواب کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ الفاظ کے ساتھ، جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سلام دیتے تو ہم جواباً کہتے: ((وَعَلَیْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهٗ وَمَغْفِرَتُهٗ)) ( سلسلة الصحیحة ، رقم : ۱۴۴۹).... ’’اور آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت ہو، اس کی برکتیں ہوں اور اس کی مغفرت ہو۔‘‘ (۲).... جب کسی مسلمان کو چھینک آئے تو دوسرے کو یرحمك اللّٰه کہنا چاہیے۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب چھینک لینے والا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ کہے اگر چھینکنے والا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ نہیں کہتا تو سننے والے کو یرحمک اللّٰہ نہیں کہنا چاہیے۔ (بخاري، باب لا یشمت العاطس اذا لم یحمد الله۔ حدیث : ۳۶۰) اسی طرح اگر غیر مسلم کو چھینک آئے اور وہ الحمد للّٰه کہے تو اس کو بھی یرحمك اللّٰه نہیں کہنا چاہیے۔ (صحیح سنن ابی داود، رقم : ۴۲۱۳) جس کو چھینک آئے اس کو الحمد للہ کہنا چاہیے۔ ترمذی شریف میں (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ) (صحیح ترمذی، رقم : ۲۲۰۲) کے الفاظ بھی ثابت ہیں ۔ اور سننے والے کو ((یَرْحَمُكَ اللّٰه)) کہنا چاہیے اور پھر چھینکنے والے کو چاہیے، ((یَهْدِیْکُمُ اللّٰهُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ)) (بخاري، کتاب الادب، رقم : ۶۲۲۴) کہے۔ (۳).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے کہ جب وہ دعوت دے تو دوسرا قبول کرے۔ دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے تو میں اس کو قبول کروں گا۔‘‘ (۴).... بیمار کی بیمار پرسی کرنا مسلمان کا ایک دوسرے پر حق ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے: ((بَابُ وُجُوْبِ عِیَادَۃِ الْمَرِیْضِ)) معلوم ہوا مسلمان مریض کی تیمارداری کرنی چاہیے، اس کے بہت سے فوائد ہیں ۔ تیماردار بیمار کے لیے مسنون دعائیہ کلمات کہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے۔ سوائے اس کے اس کی موت کا وقت آپہنچا ہو۔ ((اَسْاَلُ اللّٰهَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَكَ)) (صحیح ترمذی، رقم : ۱۶۹۸) (۵).... ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے، اگر وہ فوت ہو جائے تو دوسرا اس کے جنازے میں شرکت کرے۔ (۶).... جب مسلمان غائب ہو تو دوسرے کو اس کی خیر خواہی کرنی چاہیے۔ جامع ترمذی میں ہے: ((وَیَنْصَحُ لَهٗ اِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ۔)) (سنن ترمذي ، رقم : ۲۷۳۷).... ’’ وہ حاضر ہو یا غائب، اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘ یعنی حاضر ہے تو اس کی جھوٹی تعریف، چاپلوسی اور منافقت نہ کرے غلط مشورہ نہ دے، نہ دھوکا دے۔ اگر غائب ہے تو اس کی غیبت، چغلی اور بدخواہی نہ کرے۔
تخریج : بخاري، رقم : ۱۲۳۹، ۲۴۴۵، ۵۱۷۵، ۶۲۲۲۔ مسلم، کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام، رقم : ....، سنن ابي داود، رقم : ۵۰۳۰۔ سنن ترمذي ، رقم : ۲۷۳۶۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ایک مسلمان کو دوسرے کے حقوق ادا کرنے چاہئیں تاکہ معاشرے میں امن قائم رہ سکے، چند حقوق کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں ہوا ہے۔ (۱) ملاقات کے وقت سلام کرنا: لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جدا ہوتے وقت سلام نہیں کہنا، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو سلام کہے، اگر اس کا ارادہ بیٹھنے کا ہے تو بیٹھ جائے، پھر جب اٹھے تو سلام کہے کیونکہ پہلے سلام کا حق دوسرے سے زیادہ نہیں ۔‘‘ (صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۴۰۰) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ ملنے پر بھی سلام کہتے اور وہ اس حدیث پر عمل کرتے نظر آتے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو سلام کہے پھر اگر ان کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے تو دوبارہ ملنے پر پھر اسے سلام کہے۔ ‘‘ (سنن ابي داود، رقم : ۵۲۰۰) سلام سننے والے کو سلام کا جواب دینا چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ منه آ اَوْ رُدُّوْہَا﴾ (النسآء:۸۶).... ’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔‘‘ اچھا جواب کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ الفاظ کے ساتھ، جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سلام دیتے تو ہم جواباً کہتے: ((وَعَلَیْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهٗ وَمَغْفِرَتُهٗ)) ( سلسلة الصحیحة ، رقم : ۱۴۴۹).... ’’اور آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت ہو، اس کی برکتیں ہوں اور اس کی مغفرت ہو۔‘‘ (۲).... جب کسی مسلمان کو چھینک آئے تو دوسرے کو یرحمك اللّٰه کہنا چاہیے۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب چھینک لینے والا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ کہے اگر چھینکنے والا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ نہیں کہتا تو سننے والے کو یرحمک اللّٰہ نہیں کہنا چاہیے۔ (بخاري، باب لا یشمت العاطس اذا لم یحمد الله۔ حدیث : ۳۶۰) اسی طرح اگر غیر مسلم کو چھینک آئے اور وہ الحمد للّٰه کہے تو اس کو بھی یرحمك اللّٰه نہیں کہنا چاہیے۔ (صحیح سنن ابی داود، رقم : ۴۲۱۳) جس کو چھینک آئے اس کو الحمد للہ کہنا چاہیے۔ ترمذی شریف میں (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ) (صحیح ترمذی، رقم : ۲۲۰۲) کے الفاظ بھی ثابت ہیں ۔ اور سننے والے کو ((یَرْحَمُكَ اللّٰه)) کہنا چاہیے اور پھر چھینکنے والے کو چاہیے، ((یَهْدِیْکُمُ اللّٰهُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ)) (بخاري، کتاب الادب، رقم : ۶۲۲۴) کہے۔ (۳).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے کہ جب وہ دعوت دے تو دوسرا قبول کرے۔ دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے تو میں اس کو قبول کروں گا۔‘‘ (۴).... بیمار کی بیمار پرسی کرنا مسلمان کا ایک دوسرے پر حق ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے: ((بَابُ وُجُوْبِ عِیَادَۃِ الْمَرِیْضِ)) معلوم ہوا مسلمان مریض کی تیمارداری کرنی چاہیے، اس کے بہت سے فوائد ہیں ۔ تیماردار بیمار کے لیے مسنون دعائیہ کلمات کہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے۔ سوائے اس کے اس کی موت کا وقت آپہنچا ہو۔ ((اَسْاَلُ اللّٰهَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَكَ)) (صحیح ترمذی، رقم : ۱۶۹۸) (۵).... ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے، اگر وہ فوت ہو جائے تو دوسرا اس کے جنازے میں شرکت کرے۔ (۶).... جب مسلمان غائب ہو تو دوسرے کو اس کی خیر خواہی کرنی چاہیے۔ جامع ترمذی میں ہے: ((وَیَنْصَحُ لَهٗ اِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ۔)) (سنن ترمذي ، رقم : ۲۷۳۷).... ’’ وہ حاضر ہو یا غائب، اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘ یعنی حاضر ہے تو اس کی جھوٹی تعریف، چاپلوسی اور منافقت نہ کرے غلط مشورہ نہ دے، نہ دھوکا دے۔ اگر غائب ہے تو اس کی غیبت، چغلی اور بدخواہی نہ کرے۔