مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 774

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، نا شُعْبَةُ، عَنِ ابْنِ عَتِيقٍ، رَجُلٌ مِنْ مَلِيكَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: ((أَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا)) ، قَالَ ابْنُ عَتِيقٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِيَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَذْكُرُ مِثْلَ ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 774

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب عبداللہ نے بیان کیا: تم میں سے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھرا ہو۔ ابن عتیق نے بیان کیا، میں نے یزید بن الاصم سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اسی مثل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کرتے ہوئے سنا ہے۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعروں میں زیادہ مشعول رہنا پسند نہیں کیا مذکورہ بالاحدیث کے متعلق ابو علی لولوی رحمہ اللہ نے کہا کہ حضرت ابوعبید کا یہ قول ہمیں پہنچا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص شعر وشاعری میں اس قدر منه مک ہو جائے کہ قرآن اور اللہ کے ذکر ہی سے غافل ہو جائے (تو یہ انتہائی مذموم ہے) لیکن قرآن کریم اور مشغلہ علم غالب رہے تو ایسا آدمی ہمارے خیال میں اس کا مصداق نہیں بنتا کہ اس کا پیٹ شعروں سے بھرا ہو۔ (سنن ابي داود، رقم : ۵۰۰۹) اس سے برے شعر بھی مراد ہیں ، اچھے اشعار پڑھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں وہ جائز ہیں ۔ جیسا کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ شعر پڑھتے تھے اور بخاری شریف میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے مشرکوں کو جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی مدد کر۔‘‘ (بخاري، رقم : ۶۱۵۲)
تخریج : بخاري، کتاب الادب، باب ما یکره ان یکون الغالب الخ، رقم: ۶۱۵۵۔ مسلم، کتاب الشعر، رقم: ۲۲۵۷، ۲۲۵۸۔ سنن ابي داود، رقم: ۵۰۰۹۔ سنن ترمذي ، رقم: ۲۸۵۱۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۳۷۵۹۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۸۸۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعروں میں زیادہ مشعول رہنا پسند نہیں کیا مذکورہ بالاحدیث کے متعلق ابو علی لولوی رحمہ اللہ نے کہا کہ حضرت ابوعبید کا یہ قول ہمیں پہنچا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص شعر وشاعری میں اس قدر منه مک ہو جائے کہ قرآن اور اللہ کے ذکر ہی سے غافل ہو جائے (تو یہ انتہائی مذموم ہے) لیکن قرآن کریم اور مشغلہ علم غالب رہے تو ایسا آدمی ہمارے خیال میں اس کا مصداق نہیں بنتا کہ اس کا پیٹ شعروں سے بھرا ہو۔ (سنن ابي داود، رقم : ۵۰۰۹) اس سے برے شعر بھی مراد ہیں ، اچھے اشعار پڑھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں وہ جائز ہیں ۔ جیسا کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ شعر پڑھتے تھے اور بخاری شریف میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے مشرکوں کو جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی مدد کر۔‘‘ (بخاري، رقم : ۶۱۵۲)