مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 765

كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا شَرِيكٌ، عَنْ سَلْمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّخَعِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ تَسَمَّى بِاسْمِي فَلَا يُكَنِّي بِكُنْيَتِي، وَمَنِ اكْتَنَى بِكُنْيَتِي فَلَا يَتَسَمَّ بِاسْمِي))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 765

نیکی اور صلہ رحمی کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو میرے نام پر نام رکھے، تو وہ میری کنیت پر کنیت نہ رکھے اور جو میری کنیت پر کنیت رکھے، تو وہ میرے نام پر نام نہ رکھے۔‘‘
تشریح : ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تھے کہ ایک صاحب کی آواز آئی، یا ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے (معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی اور کو پکارا ہے) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت مت رکھو۔‘‘ (بخاري، رقم : ۳۵۳۷) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’فتح الباری‘‘ میں علماء کے مختلف اقوال نقل کیے ہیں : (۱)بعض کے نزدیک مطلقاً ممانعت ہے۔ (۲)بعض نے کہا ہے کہ جمع کرنا منع ہے۔ (۳)بعض نے کہا ہے: یہ ممانعت زندگی تک تھی۔ راجح قول یہ ہے کہ ممانعت زندگی تک ہی تھی۔ اب نام بھی اور کنیت دونوں رکھنا جائز ہے۔ (فتح الباری: ۱۰؍ ۶۹۹۔ شرح حدیث ۶۱۸۷، ۶۱۸۸، ۶۱۸۹ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) راجح قول کی مؤید یہ روایت بھی کہ سیدنا محمد ابن حنفیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) یہ اجازت حاصل تھی (جس کی تفصیل یہ ہے) انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کے بعد میرے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ۔‘‘ (ادب المفرد، رقم: ۸۴۳۔ سلسلة صحیحة، رقم: ۲۹۴۶)
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الادب، باب فیمن رای ان لا یجمع بینهما، رقم: ۴۹۶۶، اسنادهٗ حسنٌ لغیرهٖ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تھے کہ ایک صاحب کی آواز آئی، یا ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے (معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی اور کو پکارا ہے) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت مت رکھو۔‘‘ (بخاري، رقم : ۳۵۳۷) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’فتح الباری‘‘ میں علماء کے مختلف اقوال نقل کیے ہیں : (۱)بعض کے نزدیک مطلقاً ممانعت ہے۔ (۲)بعض نے کہا ہے کہ جمع کرنا منع ہے۔ (۳)بعض نے کہا ہے: یہ ممانعت زندگی تک تھی۔ راجح قول یہ ہے کہ ممانعت زندگی تک ہی تھی۔ اب نام بھی اور کنیت دونوں رکھنا جائز ہے۔ (فتح الباری: ۱۰؍ ۶۹۹۔ شرح حدیث ۶۱۸۷، ۶۱۸۸، ۶۱۸۹ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) راجح قول کی مؤید یہ روایت بھی کہ سیدنا محمد ابن حنفیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) یہ اجازت حاصل تھی (جس کی تفصیل یہ ہے) انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کے بعد میرے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ۔‘‘ (ادب المفرد، رقم: ۸۴۳۔ سلسلة صحیحة، رقم: ۲۹۴۶)