كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْكَلْبِيُّ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ))
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی قتال کرے تو وہ چہرے سے اجتناب کرے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو چہرے پر مارنا جائز نہیں ہے۔ خواہ وہ غلام، خادم، شاگرد، کوئی قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ لفظ آئے ہیں :
((اِذَا ضَرَبَ اَحَدُکُمْ خَادِمَهٗ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْهِ)) (صحیح ادب المفرد، رقم : ۱۳۰۔ ادب المفرد: ۱۷۴)
’’جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے سے بچے۔‘‘
اور کسی کو سزا دیتے وقت بھی نہیں مارنا چاہیے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ((اِذَا ضَرَبَ اَحَدُکُمْ)) کے الفاظ ہیں : اگرچہ جانور ہی کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جانور کے پاس سے گزرے جس کے چہرے کو گرم لوہے سے داغ لگا دیا گیا تھا، اس کے نتھنوں میں دھونی دی جا رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ لعنت کرے اس پر جس نے یہ کیا، کوئی شخص چہرے پر داغ نہ دے اور نہ چہرے پر مارے۔‘‘ (ادب المفرد، رقم : ۱۷۵) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
چہرے پر مارنا کیوں منع ہے؟
(۱).... ایک تو وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چہرہ انسانی حسن وجمال کا مظہر ہے اور آدمی کے اکثر حواس مثلاً دیکھنا، سننا چکھنا اور سونگھنا چہرے میں ہی پائے جاتے ہیں تو چہرے پر مارنے کی وجہ سے ان تمام حِس یا ایک کے ختم ہونے کا خدشہ ہے اور شکل بگڑنے کا بھی خدشہ ہے۔
(۲).... ’’مسند احمد‘‘ کی روایت میں ہے، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو چہرے سے بچے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ (مسند احمد: ۲؍ ۲۴۴)
ایک دوسری حدیث میں ہے :
((مَنْ قَاتَلَ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَاِنَّ صُوْرَةَ وَجْهِ الْاِنْسَانِ عَلٰی صُوْرَةِ وَجْهِ الرَّحْمٰنِ)) (کتاب السنة لابن ابي عاصم، رقم : ۵۱۶، ۵۲۱)
تخریج :
السابق۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو چہرے پر مارنا جائز نہیں ہے۔ خواہ وہ غلام، خادم، شاگرد، کوئی قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ لفظ آئے ہیں :
((اِذَا ضَرَبَ اَحَدُکُمْ خَادِمَهٗ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْهِ)) (صحیح ادب المفرد، رقم : ۱۳۰۔ ادب المفرد: ۱۷۴)
’’جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے سے بچے۔‘‘
اور کسی کو سزا دیتے وقت بھی نہیں مارنا چاہیے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ((اِذَا ضَرَبَ اَحَدُکُمْ)) کے الفاظ ہیں : اگرچہ جانور ہی کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جانور کے پاس سے گزرے جس کے چہرے کو گرم لوہے سے داغ لگا دیا گیا تھا، اس کے نتھنوں میں دھونی دی جا رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ لعنت کرے اس پر جس نے یہ کیا، کوئی شخص چہرے پر داغ نہ دے اور نہ چہرے پر مارے۔‘‘ (ادب المفرد، رقم : ۱۷۵) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
چہرے پر مارنا کیوں منع ہے؟
(۱).... ایک تو وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چہرہ انسانی حسن وجمال کا مظہر ہے اور آدمی کے اکثر حواس مثلاً دیکھنا، سننا چکھنا اور سونگھنا چہرے میں ہی پائے جاتے ہیں تو چہرے پر مارنے کی وجہ سے ان تمام حِس یا ایک کے ختم ہونے کا خدشہ ہے اور شکل بگڑنے کا بھی خدشہ ہے۔
(۲).... ’’مسند احمد‘‘ کی روایت میں ہے، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو چہرے سے بچے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ (مسند احمد: ۲؍ ۲۴۴)
ایک دوسری حدیث میں ہے :
((مَنْ قَاتَلَ فَلْیَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَاِنَّ صُوْرَةَ وَجْهِ الْاِنْسَانِ عَلٰی صُوْرَةِ وَجْهِ الرَّحْمٰنِ)) (کتاب السنة لابن ابي عاصم، رقم : ۵۱۶، ۵۲۱)