مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 748

كِتَابُ التَّعْبِيرِ الْرُؤْيَا بَابٌ اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ سُحَیْمٍ، عَنْ اِبْرَاهِیْمَ بْنِ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ اَبِیْهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَشَفَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَتَّارَةَ وَالنَّاسُ صُفُوْفٌ خَلْفَ اَبِیْ بَکْرٍ، فَقَالَ: اِنَّهٗ لَمْ یَبْقِ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ اِلَّا الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃِ، یَرَاہَا الْمُسْلِمُ اَوْ تُرٰی لَهٗ ثُمَّ قَالَ: اَ لٓا اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَقْرَأَ رَاکِعًا وَسَاجِدًا، اَمَّا الرُّکُوْعُ فَعَظِّمُوْا فِیْهِ الرَّبَّ، وَاَمَّا السُّجُوْدُ فَاجْتَهِدُوْا فِی الدُّعَاءِ، فَقَمِنَ اَنْ یُّسْتَجَابَ لَکُمْ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 748

خوبوں کی تعبیر کا بیان باب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا، جبکہ لوگ (صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم ) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بنائے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مبشرات نبوت میں سے صرف نیک؍ اچھے خواب ہی باقی رہ گئے ہیں ، جو مسلمان شخص دیکھتا ہے یا وہ اسے دکھایا جاتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’سنو! مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں رکوع یا سجدے کی حالت میں قرآن پڑھوں ، رہا رکوع تو اس میں رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو، رہے سجود تو ان میں خوب دعا کرو، لائق تر ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں ۔‘‘
تشریح : (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مصلیٰ پہ کھڑا ہونا نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اطمینان کا باعث بنا۔ (۲).... معلوم ہوا کہ اچھا خواب مسلمانوں کے لیے خوشخبری کا باعث ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ﴾ (یونس : ۶۴).... ’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘ (۳).... معلوم ہوا کہ رکوع وسجود میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ رکوع میں زیادہ سے زیادہ اللہ ذوالجلال کی عظمت بیان کرنی چاہیے اور سجدے میں بہت زیادہ دعا کرنی چاہیے، کیونکہ انسان سجدے میں اللہ ذوالجلال کے قریب ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ حالت سجدہ میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا (سجدے میں ) کثرت سے دعا کیا کرو۔ ‘‘(مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ۱۰۸۳) حدیث سے ثابت ہے کہ رکوع میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘ اور سجدے میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ کہنا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رکوع کرنے والے کے لیے مشروع کیا گیاہے کہ بندہ جھکنے اور اطمینان وخضوع کے دوران اپنے رب کی عظمت بیان کرے اور اللہ ذوالجلال کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ہر اس چیز سے عظیم اور بڑا ہے جو اس کی کبریائی، جلال اور عظمت سے متضاد ہے۔ اس لیے رکوع کرنے والے کے لیے یہ دعا ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘ علی الاطلاق افضل ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے بندوں کو اسی کا حکم فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا یہی محل تعین فرمایا ہے۔ جب یہ آیت ﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ﴾ (واقعہ:۷۴) نازل ہوئی تو فرمایا: ’’اس آیت پر رکوع میں عمل کرو۔‘‘ (کتاب الصلاة لابن القیم، ص: ۱۸۱) بخاری ومسلم میں ہے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں اکثر کہا کرتے تھے: ((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِیْ۔)) .... ’’یا اللہ تو پاک ہے اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ، یا اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی عملی تفسیر فرماتے تھے۔ قرآن کی تفسیر سے سورہ النصر میں اس فرمان الٰہی پر عمل کرنا مراد ہے: ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر:۳۔ بخاري، کتاب التفسیر، رقم : ۴۹۶۸۔ مسلم: ۴۸۴) معلوم ہوتا ہے کہ رکوع میں تسبیح وتحمید کے ساتھ ساتھ دعا کرنا بھی جائز ہے اور اسی طرح سجدے میں دعا کے ساتھ ساتھ تسبیح وتحمید جائز ہے۔ اور سجدہ میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ کیونکہ حالت ِ سجدہ میں محتاجی و تذلل کی انتہاء ہوتی ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب التعبیر، باب المبشرات، رقم: ۶۹۹۰۔ مسلم، کتاب الصلاة، باب النهي عن قراءة القرآن في الرکوع والسجود، رقم: ۴۷۹۔ سنن ابي داود، رقم: ۸۷۶۔ سنن نسائي ، رقم: ۱۰۴۵۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۳۸۹۹۔ (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مصلیٰ پہ کھڑا ہونا نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اطمینان کا باعث بنا۔ (۲).... معلوم ہوا کہ اچھا خواب مسلمانوں کے لیے خوشخبری کا باعث ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ﴾ (یونس : ۶۴).... ’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘ (۳).... معلوم ہوا کہ رکوع وسجود میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ رکوع میں زیادہ سے زیادہ اللہ ذوالجلال کی عظمت بیان کرنی چاہیے اور سجدے میں بہت زیادہ دعا کرنی چاہیے، کیونکہ انسان سجدے میں اللہ ذوالجلال کے قریب ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ حالت سجدہ میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا (سجدے میں ) کثرت سے دعا کیا کرو۔ ‘‘(مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ۱۰۸۳) حدیث سے ثابت ہے کہ رکوع میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘ اور سجدے میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ کہنا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رکوع کرنے والے کے لیے مشروع کیا گیاہے کہ بندہ جھکنے اور اطمینان وخضوع کے دوران اپنے رب کی عظمت بیان کرے اور اللہ ذوالجلال کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ہر اس چیز سے عظیم اور بڑا ہے جو اس کی کبریائی، جلال اور عظمت سے متضاد ہے۔ اس لیے رکوع کرنے والے کے لیے یہ دعا ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘ علی الاطلاق افضل ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے بندوں کو اسی کا حکم فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا یہی محل تعین فرمایا ہے۔ جب یہ آیت ﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ﴾ (واقعہ:۷۴) نازل ہوئی تو فرمایا: ’’اس آیت پر رکوع میں عمل کرو۔‘‘ (کتاب الصلاة لابن القیم، ص: ۱۸۱) بخاری ومسلم میں ہے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں اکثر کہا کرتے تھے: ((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِیْ۔)) .... ’’یا اللہ تو پاک ہے اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ، یا اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی عملی تفسیر فرماتے تھے۔ قرآن کی تفسیر سے سورہ النصر میں اس فرمان الٰہی پر عمل کرنا مراد ہے: ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر:۳۔ بخاري، کتاب التفسیر، رقم : ۴۹۶۸۔ مسلم: ۴۸۴) معلوم ہوتا ہے کہ رکوع میں تسبیح وتحمید کے ساتھ ساتھ دعا کرنا بھی جائز ہے اور اسی طرح سجدے میں دعا کے ساتھ ساتھ تسبیح وتحمید جائز ہے۔ اور سجدہ میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ کیونکہ حالت ِ سجدہ میں محتاجی و تذلل کی انتہاء ہوتی ہے۔