مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 744

كِتَابُ التَّعْبِيرِ الْرُؤْيَا بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا رُؤْيَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ، وَهُوَ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 744

خوبوں کی تعبیر کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نبوت میں سے صرف نیک بندے کے خواب باقی رہ گئے ہیں اور وہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور اچھے خواب کی بڑی شان ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ بندے کی زندگی میں بشارت اور قلب کی انسیت اور اطمینان کے لیے دکھاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ﴾ (یونس: ۶۴).... ’’ان کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔‘‘ خواب کی تین اقسام ہوتی ہیں : (۱).... اچھے خواب: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہیں ، اس شخص کے لیے جو خواب دیکھتا ہے یا جس کے بارے میں دکھایا گیا ہے۔ (۲).... وہ خواب جو شیطان کی طرف سے ہے، اس سے مراد وہ ہولناکی اور دہشت ہے جو کہ شیطان، انسان کو نیند میں دکھلاتا ہے یا وہ ناپسندیدہ مثالیں جو کہ انسان کو تشویش، غم اور بے قراری میں مبتلا کرنے کے لیے لاتا ہے۔ (۳).... نفسیاتی خواب : جو انسان دیکھتا ہے اور جن کے بارے میں وہ دن کو سوچتا ہے، جیسے دن کو سوچتا ہے، ویسے ہی نیند میں دیکھتا ہے۔ اور چھیالیسواں حصہ نبوت کا۔ یہ اس طرح ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت کا زمانہ تئیس سالہ ہے اور اس کی ۴۶ ششماہیاں بنتی ہیں ۔ ۲۳ سال کے پہلے چھ ماہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب آتے تھے اور وہ حقیقت ہوتے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا ہر کوئی خواب کی تعبیر بتانے کا اہل ہے؟ تو انہوں نے جواباً فرمایا: کیا نبوت سے کھیلا جا سکتا ہے؟ ہاں سچا خواب نبوت کا حصہ ہے۔ لیکن اس سے کھیلا نہیں جائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ سچا خواب نبوت کی باقیات میں سے ہے۔ بلکہ جزء من النبوہ سے امام مالک رحمہ اللہ کا مطلب یہ تھا کہ جیسے نبوت بعض امور غیب کی خبر دینے پر منحصر ہوتی ہے۔ اسی طرح سچا خواب بھی بعض امور غیب کی خبر دینے میں نبوت سے مشابہت رکھتا ہے، لہٰذا کوئی صاحب بغیر کسی علم کے اس بارے میں تعبیریں بتانا شروع نہ کرے بلکہ وہ خاموشی اختیار کرے۔ (ارشاد الساری: ۱۰؍ ۱۲۳، ۱۲۴)
تخریج : بخاري، کتاب التعبیر، باب الرویا الصالحة الخ، رقم: ۶۹۸۷۔ مسلم، کتاب الرویا، رقم: ۲۲۶۳۔ سنن ابي داود، رقم: ۵۰۱۸۔ سنن ترمذي ، رقم: ۲۲۷۱۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۱۹۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور اچھے خواب کی بڑی شان ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ بندے کی زندگی میں بشارت اور قلب کی انسیت اور اطمینان کے لیے دکھاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ﴾ (یونس: ۶۴).... ’’ان کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔‘‘ خواب کی تین اقسام ہوتی ہیں : (۱).... اچھے خواب: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہیں ، اس شخص کے لیے جو خواب دیکھتا ہے یا جس کے بارے میں دکھایا گیا ہے۔ (۲).... وہ خواب جو شیطان کی طرف سے ہے، اس سے مراد وہ ہولناکی اور دہشت ہے جو کہ شیطان، انسان کو نیند میں دکھلاتا ہے یا وہ ناپسندیدہ مثالیں جو کہ انسان کو تشویش، غم اور بے قراری میں مبتلا کرنے کے لیے لاتا ہے۔ (۳).... نفسیاتی خواب : جو انسان دیکھتا ہے اور جن کے بارے میں وہ دن کو سوچتا ہے، جیسے دن کو سوچتا ہے، ویسے ہی نیند میں دیکھتا ہے۔ اور چھیالیسواں حصہ نبوت کا۔ یہ اس طرح ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت کا زمانہ تئیس سالہ ہے اور اس کی ۴۶ ششماہیاں بنتی ہیں ۔ ۲۳ سال کے پہلے چھ ماہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب آتے تھے اور وہ حقیقت ہوتے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا ہر کوئی خواب کی تعبیر بتانے کا اہل ہے؟ تو انہوں نے جواباً فرمایا: کیا نبوت سے کھیلا جا سکتا ہے؟ ہاں سچا خواب نبوت کا حصہ ہے۔ لیکن اس سے کھیلا نہیں جائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ سچا خواب نبوت کی باقیات میں سے ہے۔ بلکہ جزء من النبوہ سے امام مالک رحمہ اللہ کا مطلب یہ تھا کہ جیسے نبوت بعض امور غیب کی خبر دینے پر منحصر ہوتی ہے۔ اسی طرح سچا خواب بھی بعض امور غیب کی خبر دینے میں نبوت سے مشابہت رکھتا ہے، لہٰذا کوئی صاحب بغیر کسی علم کے اس بارے میں تعبیریں بتانا شروع نہ کرے بلکہ وہ خاموشی اختیار کرے۔ (ارشاد الساری: ۱۰؍ ۱۲۳، ۱۲۴)