كِتَابُ الوَصَايَا بَابٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، نا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّهَا رَفَعَتْهُ، قَالَ: ((لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ))
وصيت كى احكام ومسائل
باب
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے مرفوعاً بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اگر وہ وصیت قرآن وسنت کے مطابق ہو تو وصیت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کو شرعاً وہ حصہ ملے گا جو قرآن وسنت میں ہے، جیسا کہ
سیّدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، پس وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔‘‘ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۸۷۰)
لیکن ورثا اجازت دے دیں تو جائز ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ((اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ الْوَرَثَةُ)) ....’’الا کہ ورثاء چاہیں ۔‘‘ (سنن دارقطني: ۴؍ ۹۷۔ بیهقی: ۶؍ ۲۶۳)
معلوم ہوا دوسرے ورثاء چاہیں تو وارث کے لیے بھی وصیت درست ہے۔ جمہور علماء اسی کے قائل ہیں ۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر دوسرے ورثاء راضی ہوں تو وصیت درست ہوگی۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے عام سے خاص کی صورت ہوتی ہے۔(نیل الاوطار: ۴؍ ۱۰۶)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر ان الفاظ کی زیادتی ’’الا کہ ورثاء چاہیں ‘‘ صحیح ہے تو یہ واضح دلیل ہے اور اہل علم نے معنوی اعتبار سے بھی اس سے حجت پکڑی ہے کہ دراصل ممانعت دوسرے ورثاء کے حق کی وجہ سے ہے، اگر وہی جازت دے دیتے ہیں تو پھر ممانعت نہیں ۔ (فتح الباري: ۶؍ ۲۵)
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ورثاء کے لیے وصیت جائز نہیں ہے، لیکن میت کے ورثاء اجازت دے دیں تو جائز ہے۔ (روضۃ الندیہ: ۲؍ ۶۷۹)
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الوصایا، باب ماجاء في الوصیة للوارث، رقم: ۲۸۷۰۔ سنن ترمذي، ابواب الوصایا، باب الاوصیة لوارث، رقم : ۲۱۲۰۔ سنن نسائي، رقم: ۳۶۴۱۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۲۷۱۳۔ قال الشیخ الالباني : صحیح۔ مسند احمد: ۴؍ ۴۲۶۔ مستدرك حاکم: ۱؍ ۴۳۵۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اگر وہ وصیت قرآن وسنت کے مطابق ہو تو وصیت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کو شرعاً وہ حصہ ملے گا جو قرآن وسنت میں ہے، جیسا کہ
سیّدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، پس وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔‘‘ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۸۷۰)
لیکن ورثا اجازت دے دیں تو جائز ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ((اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ الْوَرَثَةُ)) ....’’الا کہ ورثاء چاہیں ۔‘‘ (سنن دارقطني: ۴؍ ۹۷۔ بیهقی: ۶؍ ۲۶۳)
معلوم ہوا دوسرے ورثاء چاہیں تو وارث کے لیے بھی وصیت درست ہے۔ جمہور علماء اسی کے قائل ہیں ۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر دوسرے ورثاء راضی ہوں تو وصیت درست ہوگی۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے عام سے خاص کی صورت ہوتی ہے۔(نیل الاوطار: ۴؍ ۱۰۶)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر ان الفاظ کی زیادتی ’’الا کہ ورثاء چاہیں ‘‘ صحیح ہے تو یہ واضح دلیل ہے اور اہل علم نے معنوی اعتبار سے بھی اس سے حجت پکڑی ہے کہ دراصل ممانعت دوسرے ورثاء کے حق کی وجہ سے ہے، اگر وہی جازت دے دیتے ہیں تو پھر ممانعت نہیں ۔ (فتح الباري: ۶؍ ۲۵)
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ورثاء کے لیے وصیت جائز نہیں ہے، لیکن میت کے ورثاء اجازت دے دیں تو جائز ہے۔ (روضۃ الندیہ: ۲؍ ۶۷۹)