كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابٌ اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِذَا اَکَلَ اَحَدُکُمْ طَعَامًا، فَـلَا یَمْسَحْ یَدَهٗ حَتَّی یَلْعَقَهَا، اَوْ یُلْعِقَهَا
کھانے سے متعلق احکام و مسائل
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ ہاتھ صاف نہ کرے حتیٰ کہ وہ اسے چاٹ لے یا چٹوا لے۔‘‘
تشریح :
معلوم ہوا کھانا کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹنا چاہیے، جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَلَا یَمْسَحُ یَدَهٗ بِالْمِنْدِیْلِ حَتّٰی یَلْعَقَ اَصَابِعَهٗ۔)) .... ’’اپنا ہاتھ تولیے کے ساتھ صاف نہ کرے، یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹے۔‘‘
ہاتھ چاٹنے میں حکمت کیا ہے؟ اس کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی: ((فَاِنَّهٗ لَا یَدْرِیْ فِی اَیِّ طَعَامِهِ الْبَرَکَةُ۔)) (مسلم، کتاب الاشربۃ، رقم : ۲۰۳۳) .... ’’کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کا نوالہ گر پڑے تو اس کو اٹھا لے، اگر مٹی وغیرہ لگ جائے تو اس کو صاف کرے اور کھالے،شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ رومال سے نہ پونچھے جب تک انگلیاں نہ چاٹ لے، کیونکہ اس کو معلوم نہیں کون سے کھانے میں برکت ہے۔ (مسلم، کتاب الاشربة، باب استحباب لعق الاصابع، رقم : ۲۰۳۱)
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے ہضم ہوجائے اور پوری طرح جزو بدن بنے۔ کسی بیماری کا باعث نہ بنے اور اللہ کی اطاعت میں مددگار بنے۔
بعض اوقات آدمی بہت سا کھانا کھا لیتا ہے، لیکن سیر نہیں ہوتا۔ بھوک اور حرص باقی رہتی ہے، یہ بے برکتی کی علامت ہے اور بعض اوقات چند لقمے کھاتا ہے تو سیر ہوجاتا ہے تو یہ کھانے کی برکت کی تاثیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔
تخریج :
بخاري، کتاب الاطعمة، باب لعق الاصابع ومصها قبل ان تمسح بالمندیل، رقم: ۵۴۵۶۔ مسلم، کتاب الاشربة، باب استحباب لعق الاصابع الخ، رقم: ۲۰۳۱۔ سنن ابي داود، رقم: ۳۸۴۷۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۳۲۶۹۔ سنن دارمي، رقم: ۲۰۲۶۔ مسند احمد: ۱؍ ۲۹۳۔
معلوم ہوا کھانا کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹنا چاہیے، جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَلَا یَمْسَحُ یَدَهٗ بِالْمِنْدِیْلِ حَتّٰی یَلْعَقَ اَصَابِعَهٗ۔)) .... ’’اپنا ہاتھ تولیے کے ساتھ صاف نہ کرے، یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹے۔‘‘
ہاتھ چاٹنے میں حکمت کیا ہے؟ اس کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی: ((فَاِنَّهٗ لَا یَدْرِیْ فِی اَیِّ طَعَامِهِ الْبَرَکَةُ۔)) (مسلم، کتاب الاشربۃ، رقم : ۲۰۳۳) .... ’’کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کا نوالہ گر پڑے تو اس کو اٹھا لے، اگر مٹی وغیرہ لگ جائے تو اس کو صاف کرے اور کھالے،شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ رومال سے نہ پونچھے جب تک انگلیاں نہ چاٹ لے، کیونکہ اس کو معلوم نہیں کون سے کھانے میں برکت ہے۔ (مسلم، کتاب الاشربة، باب استحباب لعق الاصابع، رقم : ۲۰۳۱)
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے ہضم ہوجائے اور پوری طرح جزو بدن بنے۔ کسی بیماری کا باعث نہ بنے اور اللہ کی اطاعت میں مددگار بنے۔
بعض اوقات آدمی بہت سا کھانا کھا لیتا ہے، لیکن سیر نہیں ہوتا۔ بھوک اور حرص باقی رہتی ہے، یہ بے برکتی کی علامت ہے اور بعض اوقات چند لقمے کھاتا ہے تو سیر ہوجاتا ہے تو یہ کھانے کی برکت کی تاثیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔