مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 722

كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، نا شُعْبَةُ، نا عَدِيٌّ وَهُوَ ابْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعَاءٍ وَاحِدٍ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 722

کھانے سے متعلق احکام و مسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے، جبکہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔‘‘
تشریح : اہل علم نے مذکورہ، حدیث کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں : کیا واقعتا ہی اہل کفر زیادہ کھاتے ہیں اور مومن کم؟ یا اس سے مراد جملہ حیاتیاتی امور ہیں جن میں عملی طور پر صاحب ایمان اور ایک صاحب کفر کے درمیان زمین وآسمان کا تفاوت نظر آتا ہے۔ اس کی مختلف توجیہات اہل علم نے بیان کی ہیں : اول: کافر کی سات آنتوں سے مراد اس کی سات خصلتیں ہیں : (۱)حرص (۲)لالچ (۳)لمبی امید (۴)طمع (۵)بدتمیز طبع (۶)حسد (۷) بھاری جسم والا ہونا۔ ثانی: یہ حکم بعض مومنوں اور بعض کفار کے لیے ہے، اس سے جنس مومن اور جنس کافر مراد نہیں ہے۔ ثالث: حدیث میں مومن سے مراد کامل مومن ہے جو (دنیا میں ) نفس پرستی سے اعراض کرتے ہوئے اپنی ضرورت کے مطابق خوراک استعمال کرتا ہے۔ رابع: بعض مومن ایک آنت میں کھاتے ہیں اور اکثر اہل کفر سات آنتوں میں کھاتے ہیں ۔ خامس: مولانا داود راز، شاہ ولی اللہ; کے حوالہ سے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے۔ لہٰذا مومن کی شان یہی ہے کہ کم کھانا ایمان کی عمدہ سے عمدہ خصلت ہے اور زیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔ (صحیح بخاري، محمد داود راز: ۷؍ ۱۳۰) علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مذکورہ حدیث کا ماحاصل یہ ہے کہ دنیا میں تھوڑا کچھ حاصل کر کے اس پر قناعت کرنا اور دنیا میں زہد کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ (شرح مسلم للنووی: ص۱۵۶۱)
تخریج : انظر: ۲۱۱۔ اہل علم نے مذکورہ، حدیث کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں : کیا واقعتا ہی اہل کفر زیادہ کھاتے ہیں اور مومن کم؟ یا اس سے مراد جملہ حیاتیاتی امور ہیں جن میں عملی طور پر صاحب ایمان اور ایک صاحب کفر کے درمیان زمین وآسمان کا تفاوت نظر آتا ہے۔ اس کی مختلف توجیہات اہل علم نے بیان کی ہیں : اول: کافر کی سات آنتوں سے مراد اس کی سات خصلتیں ہیں : (۱)حرص (۲)لالچ (۳)لمبی امید (۴)طمع (۵)بدتمیز طبع (۶)حسد (۷) بھاری جسم والا ہونا۔ ثانی: یہ حکم بعض مومنوں اور بعض کفار کے لیے ہے، اس سے جنس مومن اور جنس کافر مراد نہیں ہے۔ ثالث: حدیث میں مومن سے مراد کامل مومن ہے جو (دنیا میں ) نفس پرستی سے اعراض کرتے ہوئے اپنی ضرورت کے مطابق خوراک استعمال کرتا ہے۔ رابع: بعض مومن ایک آنت میں کھاتے ہیں اور اکثر اہل کفر سات آنتوں میں کھاتے ہیں ۔ خامس: مولانا داود راز، شاہ ولی اللہ; کے حوالہ سے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے۔ لہٰذا مومن کی شان یہی ہے کہ کم کھانا ایمان کی عمدہ سے عمدہ خصلت ہے اور زیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔ (صحیح بخاري، محمد داود راز: ۷؍ ۱۳۰) علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مذکورہ حدیث کا ماحاصل یہ ہے کہ دنیا میں تھوڑا کچھ حاصل کر کے اس پر قناعت کرنا اور دنیا میں زہد کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ (شرح مسلم للنووی: ص۱۵۶۱)