كِتَابُ الأَطْعِمَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً وَفِي الْآخَرِ دَوَاءً)) .
کھانے سے متعلق احکام و مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں گر جائے تو وہ اسے ڈبوئے، کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں دوا (شفاء) ہے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مکھی پانی یا کسی بھی مائع چیز میں گر کر مر جائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا لہٰذا اس دودھ، چائے یا پانی کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، اگر طبیعت چاہے تو پی لے، طبیعت نہ مانے تو اس کو پینا واجب نہیں ۔ اہل علم نے مکھی کے علاوہ ہر اس جانور کو بھی مکھی پر ہی قیاس کیا ہے جس کا خون بہنے والا نہیں اور کہا ہے کہ شہد کی مکھی، بھڑ، مکڑی وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے، یعنی ان میں سے کوئی بھی جانور پانی میں گر کر مرجائے توپانی پاک ہی رہتا ہے۔ مکھی ڈبونے کی حکمت مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے۔ آج کی سائنس بھی اس چیز کو تسلیم کرتی ہے کہ مکھی کے ایک پر میں خطرناک وائرس ہوتے ہیں اور یہ فوری اثر پذیر ہوتے ہیں جب مکھی کسی کھانے پینے کی چیز میں گرتی ہے تو وہ پر جس میں وائرس ہوتا ہے کھانے کی چیز میں ڈال دیتی ہے، جبکہ اس کے دوسرے پر میں دافع وائرس یا اینٹی وائرس جراثیم ہوتے ہیں ۔اگر مکھی کو ڈبو دیں تو دافع وائرس جراثیم کھانے میں مل کر فوراً ان خطرناک جراثیموں کو ختم کر دیتے ہیں ۔ اور غذائی صحت اور تندرستی کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ ورنہ یہی غذا جراثیمی امراض کا ذریعہ بن کر انسان کی ہلاکت کا ذریعہ بن جائے گی۔
تخریج :
بخاري، کتاب بدء الخلق، باب اذا وقع الذباب في شراب، رقم: ۳۳۲۰۔ سنن ابي داود، کتاب الاطعمة، باب في الذباب یقع في الطعام، رقم: ۳۸۴۴۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۸۸۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۸۳۵۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مکھی پانی یا کسی بھی مائع چیز میں گر کر مر جائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا لہٰذا اس دودھ، چائے یا پانی کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، اگر طبیعت چاہے تو پی لے، طبیعت نہ مانے تو اس کو پینا واجب نہیں ۔ اہل علم نے مکھی کے علاوہ ہر اس جانور کو بھی مکھی پر ہی قیاس کیا ہے جس کا خون بہنے والا نہیں اور کہا ہے کہ شہد کی مکھی، بھڑ، مکڑی وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے، یعنی ان میں سے کوئی بھی جانور پانی میں گر کر مرجائے توپانی پاک ہی رہتا ہے۔ مکھی ڈبونے کی حکمت مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے۔ آج کی سائنس بھی اس چیز کو تسلیم کرتی ہے کہ مکھی کے ایک پر میں خطرناک وائرس ہوتے ہیں اور یہ فوری اثر پذیر ہوتے ہیں جب مکھی کسی کھانے پینے کی چیز میں گرتی ہے تو وہ پر جس میں وائرس ہوتا ہے کھانے کی چیز میں ڈال دیتی ہے، جبکہ اس کے دوسرے پر میں دافع وائرس یا اینٹی وائرس جراثیم ہوتے ہیں ۔اگر مکھی کو ڈبو دیں تو دافع وائرس جراثیم کھانے میں مل کر فوراً ان خطرناک جراثیموں کو ختم کر دیتے ہیں ۔ اور غذائی صحت اور تندرستی کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ ورنہ یہی غذا جراثیمی امراض کا ذریعہ بن کر انسان کی ہلاکت کا ذریعہ بن جائے گی۔